Maktaba Wahhabi

202 - 336
بھی، جنہوں نے ایسی تنگی کے وقت پیغمبر کا ساتھ دیا۔ اس کے بعد ان میں سے ایک گروہ کے دلوں میں کچھ تزلزل ہو چلا تھا ، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے حال پر توجہ فرمائی۔بلاشبہ اللہ تعالیٰ ان سب پر بہت ہی شفیق اور مہربان ہے اور تین شخصوں کے حال پر بھی ، جن کا معاملہ ملتوی چھوڑ دیا گیا تھا ، جبکہ زمین اپنی فراخی کے باوجود ان پر تنگ ہونے لگی ، اور وہ خود اپنی جان سے تنگ آگئے ، اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اللہ سے کہیں پناہ نہیں مل سکتی۔ بجز اس کے کہ اس کی طرف رجوع کیا جائے ، پھر ان کے حال پر توجہ فرمائی ، تاکہ وہ آئندہ بھی توبہ کر سکیں۔ بیشک اللہ تعالیٰ بہت توبہ قبول کرنے والا اور بڑا رحم والا ہے۔ ‘‘ یہ قرآن کی نازل شدہ آخری آیات میں سے ہے ، اور یہ بھی کہاگیاہے کہ آخری سورہ جو ناز ل ہوئی یہ ہے: (إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ (1) وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا (2) فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا )(النصر: ۱۔ ۳) ’’جب اللہ کی مدد اور فتح آجائے گی ، اور تم لوگوں کو اللہ کے دین میں جوق در جوق آتا دیکھ لو ، تو اپنے پروردگار کی تسبیح کرنے لگو حمد کے ساتھ ، اور اس سے مغفرت کی دُعا مانگو ، بیشک وہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا ہے۔ ‘‘ چنانچہ پیغمبر کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ وہ اپنے عمل کو تسبیح و استغفار پر ختم کیا کریں۔ صحیحین میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رکوع و سجود میں قرآن کی تفسیر کرتے ہوئے یہ دعاپڑھاکرتے تھے: ((سُبْحَا نَکَ اَللّٰہُمَّ رَبَّناَ وَبِحَمدِکَ أللَّہُمَّ ا غْفِرْلِیْ۔)) [1]
Flag Counter