کیونکہ دنیا اور آخرت اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور اسی کے فضل و کرم کا نتیجہ ہیں نہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فضل اور ان کی تخلیق کا نتیجہ،جیسا کہ شاعر نے اوپرکہا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَإِنَّ لَنَا لَلْآخِرَةَ وَالْأُولَىٰ﴾
’’اور بے شک آخرت اور دنیا ہماری ہی چیزیں ہیں۔‘‘[1]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قلم سے لکھی جانے والی لوح محفوظ میں درج ہر بات کو نہیں جانتے تھے،جیسا کہ شاعر نے کہا ہے۔ اس لیے کہ یہ ایسا مطلق علم غیب ہے جو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے،جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
﴿قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللّٰهُ ۚ﴾
’’(اے نبی) !کہہ دیجیے کہ جو لوگ آسمان اور زمین میں ہیں ان میں سے اللہ کے سوا کوئی بھی غیب نہیں جانتا۔‘‘[2]
جب انبیاء کو بھی غیب کا علم نہیں تو پھر اولیاء کو کیسے غیب کا علم ہوسکتا ہے بلکہ انھیں تو ان غیبی چیزوں کا بھی علم نہیں ہوتا جو اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے سے اپنے رسولوں کو بتاتا ہے۔ اس لیے کہ اولیاء پر وحی نازل نہیں ہوتی،وحی کا نازل ہونا صرف انبیاء و رسل علیہم السلام کے ساتھ خاص ہے،چنانچہ جو شخص بھی علم غیب کا دعویٰ کرے یا دعویٰ کرنے والے کی تصدیق کرے تو اس نے اپنا ایمان ضائع کردیا،جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
((مَنْ أَتَى عَرَّافًا أَوْ كَاهِنًا فَصَدَّقَهُ فِيمَا يَقُولُ،فَقَدْ كَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ))
’’جو شخص کسی کاہن یا نجومی کے پاس (خفیہ باتیں دریافت کرنے کے لیے) جائے اور پھر اس کی باتوں کی تصدیق کرے تو اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی شریعت
|