Maktaba Wahhabi

224 - 315
﴿ وَلِلّٰهِ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا أَمْرُ السَّاعَةِ إِلَّا كَلَمْحِ الْبَصَرِ أَوْ هُوَ أَقْرَبُ ﴾ ’’اور آسمانوں اور زمین کا غیب اللہ ہی کے لیے ہے اور قیامت کا معاملہ تو ایسا ہی ہے، جیسے آنکھ کا جھپکنا بلکہ اس سے بھی قریب تر ہے۔‘‘[1] اس بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ لَهُ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَبْصِرْ بِهِ وَأَسْمِعْ مَا لَهُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَلِيٍّ ﴾ ’’آسمانوں اور زمین کا غیب صرف اسی (اللہ) کو حاصل ہے وہ کیا خوب دیکھنے والا ہے اور کیا خوب سننے والا ہے۔اللہ کے سوا ان کا کوئی مددگار اور دوست نہیں۔‘‘[2] مذکورہ تینوں آیات مبارکہ اس بات پر بالکل روشن دلیل ہیں کہ کلی علم غیب صرف اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔کوئی ہستی نبی ہو یا رسول، ولی ہو یا امام، فرشتہ ہو یا جن، پیر و مرشد ہو یا مجذوب و قلندر، اللہ تعالیٰ کی اس صفت میں شریک نہیں۔ بعض لوگ فریب دینے کی نیت سے کسی ذریعے سے حاصل شدہ کسی طرح کی آگاہی کو بھی ’’علم غیب‘‘ قرار دیتے ہیں، حالانکہ جو علم حواس ظاہری و باطنی اور کسی بھی اطلاع و خبر کے ذریعے سے حاصل ہو، وہ علم، غیب نہیں رہتا۔حواس ظاہری اور باطنی یا دیگر ذرائع استعمال کیے بغیر کسی غیر موجود چیز کی خبر دینا غیب کہلاتا ہے۔اور یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ امت مسلمہ کے ’’غالیوں‘‘ نے عام طور پر انبیاء و رسل علیہم السلام کے حالات بتاتے ہوئے غلو سے کام لیا ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اللہ رب العزت سے سید ولد آدم تاجدارِ ختم نبوت، امام الاولین والآخرین، رسول الثقلین، رحمۃ للعالمین سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت سارا علم کتاب و سنت اور مشاہدات کی صورت میں عطا کیا تھا جس کا تعلق منصب نبوت کی ذمہ داریوں سے تھا یا امت کی ہدایت سے تھا، اس میں کائنات کی تخلیق کی خبریں بھی ہیں اور قیامت کے احوال بھی ہیں، سابقہ انبیاء کے احوال بھی ہیں اور ان کی امتوں کے انجام بھی ہیں۔ہم اپنے نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس علم کو نہ تولنا چاہتے ہیں نہ تول سکتے ہیں لیکن ان ’’غالیوں‘‘ نے
Flag Counter