Maktaba Wahhabi

145 - 315
روم سے فلسفہ کی کتابیں منگوا کر ان کا عربی ترجمہ کروایا تو یہ گمراہ فرقے ان کتابوں پر ٹوٹ پڑے اور قرآن و سنت کو چھوڑ کر ان کے ذریعے سے پیدا ہونے والے کلامی مباحث میں اس قدر الجھے کہ ان کی گمراہی کے اندھیرے اور زیادہ مہیب اور گہرے ہوگئے۔ اختلافات کی یہ خلیج اس وقت اور زیادہ وسیع ہوگئی جب بغداد میں بنی بویہ کی حکومت قائم ہوئی۔یہ 334 ہجری سے 437 ہجری تک رہی۔انھوں نے شیعہ مذہب کو ترویج دی اور ابن سبا کے نظریات کو سرکاری سرپرستی میں پھیلانا شروع کردیا حتی کہ مساجد کے دروازوں پر سیدنا معاویہ اور دیگر صحابہ پر لعنت کے جملے لکھوا دیے۔اس سے بغداد میں شیعہ سنی فساد پھوٹ پڑے۔ادھر افریقیہ میں فاطمیوں نے اسماعیلی عقائد کو سرکاری سرپرستی میں پھیلانا شروع کر دیا۔جب مصر میں ان کا ایک مضبوط نیٹ ورک قائم ہوگیا تو انھوں نے شام، کوفہ، بصرہ، عراق، خراسان، حجاز، یمن اور بحرین پر بھی نظریاتی حملے کیے اور رافضیت کو خوب پھیلایا۔جبکہ عراق اور خراسان وغیرہ میں معتزلہ نے اپنے مذہب کی خوب تشہیر کی۔ ان فتنوں نے توحید کا صحیح عقیدہ رکھنے والے مسلمانوں کے لیے مشکلات کے پہاڑ کھڑے کر دیے۔مسلمان ممالک میں خانہ جنگی کا وہ بازار گرم ہوا جو بیان کے قابل نہیں۔توحید خالص پر قائم رہنا جان جوکھوں میں ڈالنے کے مترادف تھا۔ہر طرف گمراہی کے آثار نمایاں تھے۔کہیں قدریہ کا فتنہ تھا، کہیں جہمیہ کی گمراہی اور کہیں معتزلہ اور کرامیہ کے فلسفیانہ مباحث۔ان میں الجھی ہوئی امت محمدیہ اپنے اصل مأخذ قرآن و سنت سے دور ہوتی گئی۔بت شکن قوم اب صنم پرستی کی طرف بڑھ رہی تھی۔اس اثنا میں ابوالحسن[1] اشعری نے معتزلہ کا عقیدہ ترک کرنے کا اعلان کر دیا۔یہ معتزلہ کے امام شمار ہوتے تھے۔معتزلہ سے ان کی
Flag Counter