Maktaba Wahhabi

143 - 315
غالی رافضیوں کا عقیدۂ امامت اور یہ کہ عقیدہ حق بارہ اماموں میں محصور ہے، اسی کا تراشیدہ ہے۔مصر اور اس کے گرد و نواح میں اس کے عقیدے کو پذیرائی ملی اور مجوسی اور بت پرست جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے انھیں اس عقیدے میں اپنے سابقہ مذہب کا پَر تَو (سایہ) نظر آیا تو انھوں نے نہ صرف اسے قبول کیا بلکہ فاطمی[1] حکمرانوں نے تو اس عقیدے کو خوب رواج دیا۔حُبّ علی کے نام سے شروع ہونے والا یہ عقیدہ بعدازاں، امامیہ، اسماعیلہ وغیرہ فرقوں کی صورت میں باقاعدہ ایک مذہب کی صورت اختیار کر گیا۔یوں لوگوں کے دلوں سے ذات باری تعالیٰ پر ایمان اور یقین اٹھ گیا اور وہ تمام اختیارات کا مالک ان ائمہ کو قرار دینے لگے جنھوں نے زندگی بھر توحید باری تعالیٰ کا درس دیا تھا۔ صحابۂ کرام کے بعد بلاد مشرق میں فرقۂ جہمیہ کا آغاز ہوا۔اس فتنے کا سرغنہ جہم بن صفوان تھا۔اس نے اللہ تعالیٰ کی صفات کا انکار کر دیا اور ایسے شکوک و شبہات پیدا کیے جنھوں نے ملت اسلامیہ کو شدید نقصان پہنچایا۔سن سو (100) ہجری کے قریب اس فتنے نے خوب زور پکڑا اور اس کے پیروکاروں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی۔ائمہ اسلام نے اس فتنے سے آگاہی کے لیے لوگوں کو خبردار کیا اور اس کی مذمت میں کتابیں لکھیں۔ ابھی اس بدعقیدگی کی تباہ کاریاں جاری تھیں کہ دوسری صدی ہجری کے قریب معتزلہ کا فتنہ کھڑا ہوگیا۔اس گروہ کے پیروکاروں نے بھی توحید باری تعالیٰ کو تختہ مشق بنایا۔انھوں نے متعدد صفاتِ الہٰیہ کا انکار کیا، انھوں نے کہا: انسان اپنے افعال کا خود خالق ہے۔وہ جو کچھ کرتا ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی مرضی شامل نہیں ہوتی۔اللہ تعالیٰ صرف خیر کو پیدا کرتا ہے شر کو پیدا کرنے والا انسان ہے اور وہی اس کا خالق ہے، گویا ہر انسان اپنے اعمال کا خود خالق ہے تو جتنے انسان اتنے خالق، نیز یہ عقیدہ پھیلانا شروع کیا کہ عذاب قبر برحق نہیں اور دنیوی جسم کو عذاب نہیں ہوگا۔قرآن مخلوق ہے، یہ اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں۔انھوں نے اس کے علاوہ بھی توحید میں کئی ایک رخنے ڈالے۔لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے ان بدعیہ عقائد کو قبول کیا اور انھوں نے اپنے مذہب کے حق میں کئی کتابیں لکھیں۔انھوں نے فلسفیانہ اور منطقی انداز سے لوگوں کو گمراہ کیا۔ائمہ اسلام نے لوگوں کو ان
Flag Counter