ہیں اس کے لئے عبادت کو خالص کر کے،پھر جب وہ انہیں خشکی کی طرف بچالاتا ہے تو اسی وقت شرک کرنے لگتے ہیں۔
۲- نیت،ارادہ اور قصد کاشرک:
ارشاد باری ہے:
﴿مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْحَیَاۃَ الدُّنْیَا وَزِیْنَتَھَا نُوَفِّ إِلَیْھِمْ أَعْمَالَھُمْ فِیْھَا وَھُمْ فِیْھَا لَا یُبْخَسُوْنَ،أُولَئِکَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَھُمْ فِي الْآخِـــرَۃِ إِلَّا النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْھَا وَبَاطِلٌ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾[1]
جو لوگ دنیوی زندگی اور اس کی رونق چاہتے ہیں،ہم انہیں ان کے سارے اعمال کا بدلہ یہیں بھر پور دیدیتے ہیں،اور یہاں انہیں کوئی کمی نہیں کی جاتی ہے،یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں سوائے آگ کے اور کچھ نہیں اور جو کچھ یہاں انہوں نے کیا ہوگاوہ سب اکارت ہے،اور ان کے سارے اعمال برباد ہونے والے ہیں۔
۳- اطاعت کا شرک:
|