Maktaba Wahhabi

63 - 325
واضح کردی۔وادی ایک ماہ تک نہر کی طرح بہتی رہی۔کوئی کسی بھی سمت سے مدینہ آتا تو اس بارش سے اس کو سابقہ پڑتا۔‘‘ اور اسی کی وہ حدیث بھی ہے جسے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ لوگ جب قحط میں مبتلا ہوتے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کے ذریعہ بارش طلب کرتے اور یوں دعاکرتے۔’’اے اﷲہم تجھ سے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے بارش مانگا کرتے تھے تو ہمیں سیراب کرتا تھا اور اب ہم تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے وسیلہ سے بارش طلب کررہے ہیں لہٰذا تو ہمیں بارش عطافرما۔‘‘ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایسا کہنے پر لوگوں کو بارش ملتی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اے اﷲہم تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ان کی زندگی میں جایا کرتے تھے اور ان سے درخواست کرتے تھے کہ ہمارے لئے بارش کی دعا فرمائیں اور ان کی دعا کے ذریعے ہم تقریب الٰہی حاصل کرتے تھے ‘اور اب جبکہ وہ رفیق اعلیٰ سے جاملے اور ان کے لئے اب ممکن نہ رہا کہ ہمارے لئے دُعا فرمائیں تو اب ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے پاس جاتے ہیں اور ان سے اپنے لئے دُعا کی درخواست کرتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللّٰہ کے مذکورہ بالا قول کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ لوگ اپنی دعاؤں میں یوں کہا کرتے تھے۔’’اے اﷲہمیں اپنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جاہ سے بارش دے۔‘‘اور اب آپ کی وفات کے بعد لوگ یوں کہنے لگے ’’اے اﷲ‘حضرت عباس رضی اﷲعنہ کے
Flag Counter