جاہ سے ہمیں بارش عطاکر۔کیونکہ اس طرح دُعا کرنا بدعت ہے۔کتاب وسُنّت میں اس کی اصل وبنیاد نہیں ہے اورنہ ہی سلف صالح میں کسی ایک نے ایسا کیا ہے۔
اور اسی ضمن میں یہ روایت بھی آتی ہے جس کو حافظ ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں سند صحیح کے ساتھ تابعی جلیل سلیم بن عامر الخبائری سے روایت کیا ہے کہ ’’آسمانی قحط نازل ہوا تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بن ابی سفیان رضی اﷲعنہ اور اہل دمشق استسقاء کے لئے نکلے۔جب حضرت معاویہ رضی اﷲعنہ منبر پر تشریف لے گئے تو فرمایا:یزید بن الاسود الجرشی کہاں ہیں؟لوگوں نے ان کو آواز دی۔حضرت یزید لوگوں کو پھاندتے ہوئے آئے۔حضرت معاویہ رضی اﷲعنہ نے حکم دیا تو وہ بھی منبر پر چڑھے اور حضرت معاویہ رضی اﷲعنہ کے پاؤں کے پاس بیٹھ گئے۔حضرت معاویہ رضی اﷲعنہ نے فرمایا:’’اے اﷲہم تیرے پاس سفارش لے کر آئے ہیں اپنے سب سے بہتر اور افضل شخص کے ذریعہ۔اے یزید اپنے دونوں ہاتھوں اﷲکی طرف اُٹھاؤ۔انہوں نے دونوں ہاتھ اُٹھالئے اور سب لوگوں نے بھی ہاتھ اُٹھالئے۔تھوڑی ہی دیر بعد مغرب سمت میں ایک بدلی ڈھال کی ماں ند نکلی اوراس کو ہوا لیکر اُڑی اور ہم کو اس طرح سَیراب کرڈالا کہ لوگ اپنے مکانوں تک پہنچ نہیں پاتے تھے۔
اور ابن عساکر نے سند صحیح سے یہ بھی روایت کیا ہے کہ ضحاک بن قیس استسقاء کیلئے لوگوں کو لے کر نکلے اور یزید بن الاسود سے کہا:اے رونے والے اُٹھ ’’چنانچہ اُنہوں نے ابھی تین بار ہی دُعاکی تھی کہ اتنی شدید بارش ہونے لگی کہ
|