صالح بزرگ کو منتخب کرتا اور ان سے درخواست کرتا کہ وہ اس کے لئے دعا فرمائیں جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کے چچا حضرت عباس رضی اﷲعنہ سے دعا استسقاء کی درخواست کی تھی۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کی قبر پر یا کہیں سے آپ کو دعا استسقاء کے لئے نہیں پکارا ‘اگر یہ فعل جائز ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو ہرگز دعا کیلئے نہ کہتے۔لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایسا محض اس لئے نہیں کیا کہ وہ جانتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے وفات پاچکے ہیں اور اب پکارے جانے کے مستحق نہیں ہیں اور نہ ہی آپ دعا وغیرہ کرسکتے ہیں۔
پھر اس آیت کا اس واقعہ سے کوئی تعلق بھی نہیں۔یہ آیت تو منافقین کے بارے میں نازل ہوئی جولوگوں کو اتباع رسول سے روکتے تھے ‘اور طاغوت کوحکم بناتے تھے اور جب کسی معاملے میں مجبور پڑجاتے تھے تو آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کے پاس آتے اور قسم کھا کر معذرت کرتے تھے کہ ہم دوسروں کے پاس محض ان کی دلجوئی کے لئے گئے تھے ورنہ ہمارا ان پر ایمان واعتقاد نہیں۔لہٰذا یہ منافقین جب آپ کی مجلس میں آکر اللّٰہ سے استغفار کرتے اور آپ سے بھی استغفار کی درخواست کرتے تو اﷲان کو بخش دیتا۔ان کی اسی عادت کی طرف اﷲتعالیٰ نے اشارہ فرمایا کہ اگر یہ منافقین آتے اور استغفار کرتے تو اﷲکو تواب ورحیم پاتے۔لیکن یہ بدنصیب آئے ہی نہیں ‘نہ ہی استغفار کیا نہ رسول نے ان کے لئے استغفار کیا۔
|