سمجھ لیا کہ تو اپنے نام کے ساتھ صرف اسی کا اضافہ کرتا ہے جو تجھے تیری مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘
یہ مکالمہ دووجہ سے قابل رد ہے۔اول یہ کہ اﷲاور آدم کے درمیان کی یہ بات چیت حضرت آدم کی خطا کے بعد ہوئی ہے جب کہ اﷲتعالیٰ نے خطا سے قبل ہی آدم علیہ السلام کو تمام چیزوں کے نام بتادئیے تھے اور انہی ناموں سے حضرت محمدصلی اللّٰہ علیہ وسلم کا نام بھی تھا۔حضرت آدم جانتے تھے کہ آپ اﷲکے نبی ورسول اور اﷲکی مخلوق میں سب سے بہتر ہیں۔لہٰذا اگر کہنا ہی تھا تو حضرت آدم کو یوں کہنا چاہئے تھا کہ ’’اے اﷲ!جب تو نے مجھے سب نام سکھائے تو اسی وقت حضرت محمد کانام بھی بتادیا تھا کہ وہ ایسے ہیں اور ایسے ہیں۔‘‘
دوم یہ کہ عرش کے پایوں پر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰه۔لکھنے کا ذکر صرف اسی موضوع حدیث میں موجود ہے اس کے علاوہ کہیں نہیں ہے۔تو بھلا ایک غیبی چیز موضوع حدیث سے کیسے ثابت ہوسکتی ہے؟
۳۔ اس حدیث کا ٹکڑا ’’آدم تم نے سچ کہا ‘حضرت محمد مخلوق میں سب سے زیادہ مجھے محبوب ہیں۔اور جب تم نے ان کے حق کے واسطے سے سوال کیا تومیں نے تم کو بخش دیا۔‘‘قیاس سے باہر ہے ‘کیونکہ یہ پہلے گذرچکا ہے کہ غیر اﷲکی قسم کھانی شرک ہے۔جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔
من حلف لغیر اللّٰہ فقد اشرک
’’جس نے غیر اﷲکی قسم کھائی اس نے شرک کیا۔‘‘
|