یہاں تک کہ بارش ہونے لگی۔
۱۵۔ اور صحیح بخاری میں ہے کہ جب اعرابی آیا اور نبی صلی اﷲعلیہ وسلم سے قحط کی شکایت کی تو آپ نے دعا فرمائی اور آسمان بارش سے پھٹ پڑا آپ نے فرمایا اگر ابوطالب زندہ ہوتے تو ان کی آنکھیں(خوشی سے)ٹھنڈی ہوجاتیں ‘ہمیں ان کا یہ شعر کون سنائے گا؟حضرت علی رضی اﷲعنہ نے کہا ‘شاید آپ ان کے اس شعر کی بابت فرمارہے ہیں۔
وابیض یستسقی الغمام بوجھہ
ثمال الیتامی عصمۃ للازامل
اور وہ حسین شخص جس کے چہرے کے واسطے سےبدلیوں سے بارش مانگی جاتی ہے یتیموں کا کفیل بیواؤں کا محافظ
یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ انور کھل اٹھا اور نہ تو اس شعر ہی پر آپ نے ناگواری فرمائی اور نہ ’’یستسقی الغمام بوجہہ‘‘کے فقرے پر اگر ایسا کہنا حرام اور شرک ہوتا تو آپ ضرور انکار فرمادیتے اور یہ شعر سں نے کی خواہش نہ فرماتے۔
۱۶۔ طبرانی نے ’’الکبیر ‘‘میں روایت کی ہے کہ سواد بن قارب رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ قصیدہ پڑھا جس میں وسیلہ کا ذکر ہے اور آپ نے اس پر انکار نہیں کیا ‘اس قصیدہ کے چند اشعار یہ ہیں۔
|