کیونکہ صحابہ کی اصطلاح میں لفظ نسخ کو جتنے مختلف انداز میں استعمال کیا گیا ہے اس سے یہ پتہ لگانا کہ کونسی آیت واقعی منسوخ ہے اور کون سی نہیں واقعی مشکل ہے لہٰذا منسوخ آیات کی تعیین کے لیے کذشتہ تاریخ کا سہارا لیا جاتا ہے کبھی سلف صالحین کے اجماع کو نسخ کی دلیل سمجھا جاتا ‘کبھی علماءکے اتفاق کو‘ان دونوں گروہوں میں سے کوئی گروہ متفقہ طور پر جس آیت کو منسوخ قرار دےدیتاہے اسے منسوخ سمجھ لیا جاتا ہے عام لوگوں کا ذکر نہیں بعض بڑے بڑے فقہاء نے بھی اس کا ارتکاب کیا ہے حالانکہ اس اجماع اور اتفاق پر بھروسہ کرنا غلط ہے کیونکہ اس کا امکان ہر قدم موجود ہے کہ اجماعی طور پر آیت کا جو مطلب سمجھا گیا ہے وہ حقیقی مفہوم کے خلاف ہو ایس صورت میں دعوٰی نسخ کی کیا قیمت ہو سکتی ہے مختصر یہ کہ منسوخ آیات کی بحث میں بڑی پیچیدگیاں ہیں اور ان تہ تک پہنچنا بہت مشکل ہے۔
محدثین نے اپنی ایک الگ راہ نکالی ہے وہ اس باب میں صرف مندرجہ بالا اقسام ہی پر اکتفاء نہیں کرتے اس کے علاوہ بعض دوسری چیزوں کو بھی پیش کرتے ہیں مثلا صحابہ کے درمیان اگر کسی مسئلہ میں مناظرہ ہوا اور اس سلسلہ میں کسی نے اس آیت کو بطور شاہد پیش کیا یا انہوں نے اس آیت کو کبھی تمثیل پر پیش کیا یا نبی علیہ السلام نے بذات خود اس آیت کی کسی حکم کے سلسلہ میں تلاوت فرمائی محدثین اس طرح کے تمام مقامات کو بھی نقل کرتے ہیں اس کے علاوہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ایسی حدیث روایت کی گئی ہو جوآیت کےمفہوم پر روشنی ڈالتی ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ سے آیت کا کوئی مخصوص تلفظ یا کوئی خاص معنٰی نقل کیاگیاہوتووہ انہیں بھی اس سلسلہ میں بیان کر دیتے ہیں۔
اوبیان کون قید من القيود اتفاقيا اوتخصيص عام اوبيان الفارق بين المنصوص وما قيس عليه ظاهرا او ازالة عادة الجاهلية اوالشريعةالسابقةفاتسع باب النسخ عندهم وكثر جولان العقل هنالك واتسعت دائة الاختلاف ولهذاابلغ عدد الايات المنسوخة خمس مائة وان تاملت متعمقا فهى غير محصورة والمنسوخ باصطلاح المتاخرين عدد قليل لاسيما بحسب مااخترناه من التوجيه وقد ذكر الشيخ جلال الدين السيوطى في كتاب الاتقان بتقرير مبسوط كما ينبغي بعض ما ذكره العلماء ثم حرره المنسوخ الذى فيه رأي المتأخرين على دفق الشيه ابن العربى فعده قريبا من عشرين ىية وللفقير في اكثر تلك العشرين نظر۔[1]
یعنی نسخ کا ایک انداز یہ بھی ہے کہ آیت میں بیان کی ہوئی کسی قید یا شرط کے متعلق یہ وضاحت کر دی جائے کہ یہ شرط لازمی اور ضروری نہیں اتفاقی ہے‘یاکسی حکم عام کو خاص کر دیا جائے یاکوئی ایسا نکتہ بیان کر دیا جائے جس سے حکم اصلی اور مفروضہ حکم کے درمیان امتیاز پیدا ہو جائے یا جاہلیت کی کسی عادت یا شریعت سابقہ کے کسی حکم کو ختم کر دیا جائے ان تمام
|