چاہے تو اس کی بارگاہ میں نہ ان کی سفارش مجھے کام آسکے اور نہ وہ مجھے اس کی گرفت سے چھڑا ہی سکیں اب تم خود ہی بتاؤ کیا ایسے عاجز معبود، خدا کے یہاں شفیع غالب اور کارساز ہوسکتے ہیں؟[1]
مزید لکھتے ہیں: ’’ قل للّٰه الخ ‘‘ یہ مشرکین کے زعم باطل کا جواب ہے کہ مشرکین کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے مزعومہ معبودوں کو عند اللہ شفیع غالب مانیں۔ شفاعت تو اللہ کے ساتھ مختص ہے وہ جسے چاہے اور جس کے حق میں چاہے سفارش کرنے کی اجازت دے۔ شفاعت کی اجازت صرف انبیاء علیہم السلام اور صلحائے امت کو ملے گی۔ اور وہ بھی صرف ان لوگوں کے حق میں جنہوں نے اپنی زندگی میں شرک نہیں کیا اور اگر کیا ہے تو مرنے سے پہلے توبہ کرلی ہے۔ ’’ لہ ملک السموات الخ ‘‘ ساری کائنات کی حکومت و سلطنت اللہ کے لیے ہے اور وہ اپنی مرضی اور اختیار سے اس میں تصرف کرتا ہے اس لیے اس کی بارگاہ میں کوئی شفیع قاہر نہیں۔ آخرت میں بھی سب اس کے سامنے حاضر ہوں گے۔ وہاں بھی بلا شرکت غیرے وہی متصرف و مختار ہوگا۔[2]
انی اذا الخ، اگر میں اللہ کے سوا اوروں کو معبود اور کارساز بنا لوں اور ان کو خدا کی بارگاہ میں شفیع غالب سمجھنے لگوں تو میں صریح گمراہی میں ہوں گا، اس کے بعد مشرکین نے اس پر پتھر برسانے شروع کردئیے اس نے اسی حال میں اپنی قوم سے خطاب کر کے اپنا آخری اعلان کیا۔ میری قوم ! سن لو، میں تمہارے خالق و مالک کی توحید پر ایمان لا چکا ہوں، تمہیں بھی اس پر ایمان لانا چاہئے۔ یا یہ خطاب رسولوں سے ہے، جب مشرکین نے اسے قتل کرنا چاہا تو اس نے رسولوں سے مخاطب ہو کر کہا جس رب نے تمہیں بھیجا ہے میں اس پر ایمان لا چکا ہوں اس لیے میرا اقرار و اعلان سن لو اور اس پر گواہ رہنا(قرطبی، ابن کثیر، ابن جریر)۔ [3]
’’ له ملک السموات ‘‘ یہ توحید کے تیسرے مرتبے کا اعادہ ہے خالق ومالک بھی وہی ہے اور تخت بادشاہی پر بھی وہی مستوی ہے اور کائنات کے تمام معاملات اسی کی طرف راجع ہیں۔ اور کائنات میں وہی متصرف اور مختار ہے۔ ’’ یولج الیل فی النهار ‘‘ یہ اللہ تعالیٰ کے اختیار و تصرف کا ایک نمونہ ہے یعنی رات دن کا آنا جانا اور ان کا گھٹنا اور بڑھنا اللہ کے اختیار میں ہے اور اس کا علم اس قدر محیط اور کامل ہے کہ وہ سینوں کے پوشیدہ رازوں کو بھی اچھی طرح جانتا ہے۔ جب ساری کائنات کا خالق و مربی اور ساری کائنات میں بلا شرکت غیرے متصرف و مختار وہی ہے تو لامحالہ وہی سب کا کارساز ہے۔ اور حاجات و مصائب میں مافوق الاسباب پکار کے لائق بھی وہی ہے۔ یہ توحید کا تیسرا مرتبہ ہے۔ توحید کے یہ تینوں مراتب سورۂ انعام کی ابتداء میں مذکور ہوئے ہیں اور اسی طرح سورۂ حشر کی آخری آیتوں اور پھر سورۃ الناس کی ابتدائی آیتوں میں بھی مذکور ہوں
|