ہم ان باتوں پر اعتقاد رکھتے اور یقین جانتے ہیں کہ جو کچھ خدا کی طرف سے اترا وہ بے کم وکاست موجودہ قرآن میں جو درحقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ حیات میں تحریر ہو چکا تھا موجود ہے‘ اور کوئی حرف بھی اس سے خارج نہیں ہے اور نہ قرآن مجید کی کوئی آیت منسوخ ہے بلکہ احکام وادیان سابقہ کی نسبت بھی لفظ نسخ کا مجازی معنی میں استعمال ہوا ہے نہ حقیقی معنی میں۔
نسخ کے معنی لغت میں کسی شے کے دور کر دینے کے اور متغیر کر دینے اور باطل کر دینے کے ہیں‘ خواہ اس کی جگہ کوئی دوسری چیز قائم ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو اور نقل وتحویل کے معنی یہی ہیں‘ اور اس بحث سے کہ ان معنوں میں اصلی کون سے ہیں اور مجازی کون سے ہم کو چنداں فائدہ نہیں ہے مگر جب اس لفظ کو کسی خاص علم میں استعمال کیا جائے گا مثلا شرع میں تو اس کی تعریف میں کچھ ایسے بڑھانے ہوں گے جس سے وہ معنی اس علم کے مناسب ہو جاویں۔پس شرع میں نسخ کے معنی یہ ہوں گے کہ ایک شرعی حکم کا کسی دوسرے شرعی حکم سے زائل یا متغیر یا باطل ہونا۔ پہلا حکم منسوخ کہلائے گا اور دوسرا حکم ناسخ۔
یہ تعریف ناسخ کی جو جو گویا ناسخ ومنسوخ دونوں کی تعریف ہے‘ظاہر ہے کہ منصوص نہیں ہے یعنی ظاہر ہے کہ یہ تعریف ناسخ ومنسوخ کی نہ خدا نے بتائی ہے نہ رسول نے بتائی ہے‘ بلکہ علماء نے خود اپنے قیاس اور خیال اور استنباط سے قائم کی ہے اور کسی مسلمان پر واجب نہیں ہے کہ خواہ مخواہ اس تعریف کو تسلیم کرے‘ ہمارے نزدیک جس وقت نسخ کو شرع سے متعلق کیا جائے گا تو اس وقت حیثیت کو اس کا جزو قرار دینا واجب اور لازم ہو گا‘ کیونکہ جس قدر احکام شرعی ہیں وہ سب کسی نہ کسی حیثیت پر مبنی ہیں۔ پس اگر باوجود بقا اس حیثیت کے جس پر وہ حکم صادر ہوا تھا‘ دوسرا حکم برخلاف پہلے حکم کے صادر کیا جاوے تو کہا جائے گا کہ دوسرا حکم ناسخ ہے اور پہلا حکم منسوخ‘ اور اگر وہ حیثیت جس کی بناء پر پہلا حکم صادر ہوا تھا موجود نہ رہے تو دوسرا حکم پہلے حکم کا حقیقتاً ناسخ نہیں ہے گو مجازاً ایک کا دوسرے کو ناسخ کہیں۔
پس ہم قبول کرتے ہیں کہ ایسے احکام بھی موجود ہیں جو شرائع سابقہ میں مامور بہ تھے اور شرائع ما بعد میں مامور بہ نہیں رہے یا بالفرض ہم تسلیم کر لیں کہ خود مذہب اسلام ہی میں اول کوئی حکم مامور بہ تھا اور پھر بعد کو مامور بہ نہیں رہا اور یہ بھی ثابت ہو کہ حیثیت اور حالت متحد نہیں رہی تھی تو ہم یایک کو دوسرے کا ناسخ نہیں قرار دینے کے اور ہم کیا کوئی ذی عقل بھی ہندو‘ مسلمان یہودی‘ عیسائی اور دہریہ ان میں سے کسی کو ناسخ ومنسوخ نہیں کہنے کا۔یہ دوسری بات ہے کہ ہم مجازاً یا بطور ایک اصطلاح کے ان کو ناسخ ومنسوخ کہنے لگیں۔ ہم نے تمام قرآن میں کوئی ایسا حکم نہیں پایا اور اس لیے ہم کہتے ہیں کہ قرآن میں ناسخ ومنسوخ نہیں ہے۔ البتہ علماء اور فقہاء نے جن آیتوں کو ایک دوسرے کے مخالف خیال کیا ہے اور ایک کو ناسخ اور ایک کو منسوخ ٹھہرایا ہے تو ہم ہو موقع پر ثابت کریں گے کہ وہ باہم مخالف نہیں ہیں اور تفاوت حیثیت بھی ظاہر کر دیں گے‘ جس کے بغیر لحاظ کے ناسخ ومنسوخ کا قرار دینا محالات سے ہے۔[1]
|