بعض آزاد خیال مفسرین کا قرآن مجید میں نسخ کے وقوع کا انکار:
سر سید احمد خان رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ مَا نَنْسَخْ‘‘ اس آیت کی تفسیر میں ہمارے ہاں مفسروں نے بے انتہاء کج بحثیاں کی ہیں اور مذہب اسلام کو بلکہ خدا کو بدنام کیا ہے اور قرآن مجید کو ایک شاعر کی بیاض بنا دیا ہے‘ ان ہی کج بحثیوں میں بعض مفسروں نے جن کو خدا نے ہدایت دی ہے‘ سیدھی راہ بھی اختیار کی ہے‘ ہر ایک شخص جس کے مزاج میں کج بحثی نہیں ہے وہ اس آیت کو اور اس سے پہلی آیت کو پڑھ کر سیدھا اور صاف مطلب سمجھ سکتا ہے‘ اس آیت سے پہلی آیت میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اہلِ کتاب اس بات کو دوست نہیں رکھتے کہ خدا کی طرف سے تم پر کچھ بھلائی اترے‘ اور بھلائی سے علانیہ مراد قرآن اور احکام شریعت ہیں۔ اہل کتاب جو اس بات کو دوست نہیں رکھتے تھے اس کی صاف صاف دو وجہیں تھیں‘ اول یہ کہ تمام انبیاء بنی اسرائیل میں گزرے تھے اور ان کو پسند نہیں تھا کہ بنی اسماعیل میں جن کو وہ بالطبع حقیر بھی سمجھتے تھے کوئی نبی پیدا ہو۔ اس کی نسبت خدا نے فرمایا کہ اللہ مخصوص کرتا ہے اپنی رحمت سے جس کو چاہتا ہے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ احکامِ شریعت محمدی کے موسوی شریعت کے احکام سے کسی قدرمختلف تھے اور یہودی اپنی شریعت کی نسبت سمجھتے تھے کہ وہ دائمی ہے اور کبھی کوئی حکم اس کا تبدیل نہیں ہونے کا۔ اس کی نسبت خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ جو آیت کہ ہم منسوخ کرتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں تو اس کی جگہ اسی کی مانند یا اس سے بہتر آیت دیتے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس مقام میں آیت کے لفظ سے قرآن کی آیت مراد نہیں ہے بلکہ موسوی شریعت کے احکام جو شرع محمدی میں تبدیل ہو گئے‘ یا جن احکام شریعت موسوی کو یہودیوں نے بھلا دیا تھا وہ مراد ہیں۔ ہمارے اکثر مفسرین نے نہایت کج بحثی سے اس آیت میں جو لفظ’آیت‘ ہے اس کو قرآن مجید کی آیتوں پر محمول کیا ہے اور یہ سمجھا ہے کہ قرآن مجید کی ایک آیت دوسری آیت سے منسوخ ہو جاتی ہے اور اسی پر بس نہیں کیا‘ بلکہ ’’ننسھا‘‘ کے لفظ سے یہ قرار دیا کہ پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم بعض آیتوں کو بھول بھی گئے تھے اور ان دو لفظوں یعنی ننسخ اور ننسھا کی بناء پر جھوٹی اور مصنوعی روایتوں کے بیان کرنے سے اپنی تفسیروں کے ورق کے ورق سیاہ کر دیئے ہیں مگر ان میں کی ایک روایت بھی صحیح نہیں ہے‘ ان ہی جھوٹی روایتوں کی بناء پر انہوں نے قرآن کی آیتوں کو چار قسم کی آیتوں پر تقسیم کیا ہے:
اول:وہ آیتیں جن کی تلاوت اور احکام دونوں بحال ہیں اور وہ سب آیتیں قرآن میں موجود ہیں۔
دوم:وہ آیتیں جن کی تلاوت بحال ہے اور احکام منسوخ ہو گئےہیں۔ان آیتوں کی نسبت بھی کہتے ہیں کہ قرآن میں موجود ہیں۔
سوم:وہ آیتیں جن کی تلاوت منسوخ ہو گئی ہے مگر احکام بحال ہیں۔
چہارم:وہ آیتیں جن کی تلاوت اور احکام دونوں منسوخ ہو گئے ہیں۔تیسری ارو چوتھی قسم کی آیتوں کی نسبت صاحب کہتے ہیں کہ قرآن میں موجود نہیں ہیں مگر ان جھوٹی روایتوں میں ان کا موجود ہونا بیان کرتے ہیں۔
|