خرچ نہیں کرتے۔ چنانچہ وہ سب سے زیادہ بخیل ہیں اور ان پر یہ صفت منطبق ہوتی ہے۔ ﴿غُلَّتْ اَیْدِیْہِمْ﴾ یعنی ان پر بخل کی چھاپ ہے۔ اس کا یہ معنی نہیں کہ ان کے ہاتھ حقیقت میں ان کی گردنوں کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں بلکہ اس سے مراد ان کا بخل ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ لَا تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَۃً اِلٰی عُنُقِکَ﴾ ’’اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ کرلے۔‘‘ یعنی آپ بخل نہ کریں۔ اور ﴿وَ لَا تَبْسُطْہَا کُلَّ الْبَسْطِ﴾ (الاسراء:۲۹) ’’ اور نہ اسے کھول دے، پورا کھول دینا۔‘‘ یعنی اسراف نہ کریں۔ الغرض خرچ نہ کرنا بخل ہے اور بے دریغ خرچ کرنا اسراف ہے۔ ﴿وَ لَا تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَۃً اِلٰی عُنُقِکَ وَ لَا تَبْسُطْہَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا، ﴾ (الاسراء:۲۹) ’’اور نہ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا کرلے اور نہ اسے کھول دے، پورا کھول دینا، ورنہ ملامت کیا ہوا، تھکا ہارا ہو کر بیٹھ رہے گا۔‘‘ ﴿وَالَّذِیْنَ اِِذَا اَنفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا﴾ (الفرقان:۶۷) ’’اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ خرچ میں تنگی کرتے ہیں اور (ان کا خرچ) اس کے درمیان معتدل ہوتا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت کی ہے۔ کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ میں نقص بیان کیا اور لعنت سے مراد اللہ کی رحمت سے دوری ہے۔ لہٰذا یہ اس بات کی خرابی کی دلیل ہے۔ پھر اللہ |
Book Name | شرح لمعۃ الاعتقاد دائمی عقیدہ |
Writer | امام ابو محمد عبد اللہ بن احمد بن محمد ابن قدامہ |
Publisher | مکتبہ الفرقان |
Publish Year | |
Translator | ابو یحیٰی محمد زکریا زاہد |
Volume | |
Number of Pages | 440 |
Introduction |