Maktaba Wahhabi

97 - 440
پرستی ان کی فطرت ثانیہ بن چکی تھی اور کفار کی سوچ ان میں در آئی تھی تو وہ پاگلوں کی طرح مسئلہ صفات میں واہیات بکنے لگے۔ لیکن جو لوگ پختہ علم رکھتے تھے انہوں نے صفات سے تعرض نہ کیا۔ مثال کے طور پر بڑے بڑے ائمہ کرام رحمہم اللہ جمیعاً۔ اگرچہ ان میں سے کچھ عجمی بھی تھے۔ لیکن ان کے پاس چونکہ بصیرت اور پختہ علم تھا، اس لیے وہ اس مسئلہ میں الجھتے نہیں تھے۔ صفات میں تعرض صرف انہی لوگوں نے کیا جن کی کفر اور بت پرستی کی گندگی کی وجہ سے آلودہ اور سوچ پراگندہ ہوچکی تھی ۔ وہی لوگ ایسی باتیں کرنے لگے۔ ***** فَمَہْمَا جَائَ مِنْ اٰیَاتِ الصِّفَاتِ (۱) قولُہ تَعالیٰ: ﴿وَیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ﴾ (الرحمن:۲۷) (۲) وَقَولُہ تَعالیٰ ﴿بَلْ یَدَاہُ مَبْسُوْطَتَانِ﴾ (المائدہ:۶۴) (۳)۔ ترجمہ…: تو جو آیات صفات سے متعلقہ ہیں، ان میں سے اللہ کا یہ فرمان ہے: ’’اور باقی رہے گا تیرے رب کا چہرہ‘‘ اور یہ فرمان ہے: ’’بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہیں۔‘‘ تشریح…: (۱) جب اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کے بارے میں منہج سلف بیان ہوچکا تو مصنف کتاب و سنت سے صفات کی نصوص کا بیان شروع کر رہے ہیں۔ (۲)… لہٰذا جب بھی قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی صفات کے سلسلہ میں چہرے کا ذکر آیا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے چہرے کا وجود بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ، وَیَبْقَی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلَالِ وَالْاِِکْرَامِ،﴾ (الرحمن:۲۶تا۲۷) ’’ہر ایک جو اس( زمین)پر ہے، فنا ہونے والا ہے۔ اور تیرے رب کا چہرہ باقی رہے گا، جو بڑی شان اور عزت والا ہے ۔‘‘
Flag Counter