اس کے علاوہ وہ آیات جن میں اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفات مثلاً چہرہ اور ہاتھوں کا ذکر ہے اور وہ آیات جن میں معنوی صفات مثلاً علم، ارادہ اور قدرت کا ذکر ہے اور فضیلت کی صفات جیسے؛ تخلیق، رزق، کلام اور استواء وغیرہ کی آیات۔ قولہ: ((وَقِرَائَۃُ اَخْبَارِہَا)) اس سے مراد احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ انہیں آثار بھی کہا جاتا ہے۔ قراء ت اخبار سے مراد یہ ہے کہ اسلاف نے ان احادیث کو پڑھا اور جس طرح یہ ان تک پہنچیں اسی طرح انہیں لوگوں تک پہنچایا اور انہیں پڑھایا۔ وہ نہ تو اس کی تاویل کے پیچھے پڑے اور نہ ہی صفات باری تعالیٰ کی کیفیت جاننے کا تکلف کیا۔ بلکہ انہیں اسی حالت پر باقی رکھا جس میں وہ ان تک پہنچی تھیں اور ان کے لیے یہ مشکل نہ تھیں۔ کیونکہ وہ ان کے معانی کو جانتے تھے۔ یہ کلام ان کی زبان میں نازل ہوا تھا اور وہ فصحاء عرب تھے۔ چنانچہ انہوں نے نہ تو اس کے بارے میں سوال کیا اور نہ ہی بحث و مباحثہ کیا۔ کیونکہ وہ ان کے مدلول و مقصود کو جانتے تھے۔ وہ نہ تو ان کے پیچھے پڑے اور نہ ہی ان کے ذہنوں میں یہ شبہ پیدا ہوا کہ یہ تشبیہ ہے۔ الغرض وہ خالق و مخلوق کی صفات میں فرق کو جانتے تھے۔ انہوں نے ارشاد باری تعالیٰ: ﴿السمیع البصیر﴾ کے بارے میں یہ نہیں کہا کہ مخلوق بھی سنتی اور دیکھتی ہے لہٰذا اس سے تشبیہ لازم آتی ہے۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ خالق کی صفات صرف اسی کے ساتھ خاص ہیں اور مخلوق کی صفات ان کے ساتھ خاص ہیں۔ مخلوق کا سننا اور دیکھنا خالق کے سننے اور دیکھنے کی طرح نہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ وَہُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ﴾ (الشوری:۱۱) ’’اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔‘‘ اس آیت نے نہ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اشکال میں ڈالا اور نہ ہی قرون مفضّلہ میں اہل علم کو۔ بلکہ انہوں نے اس کے مدلول کا اثبات کرتے ہوئے اسے اسی طرح پڑھا اور پڑھایا جیسے یہ نازل ہوئی۔ لیکن جب ایسے لوگ ان کے جانشین بن گئے جو نسل در نسل عجمی تھے، بت |