فِیْ زُخْرُفِ الْقَوْلِ تَزْیِیْنٌ لِبَاطِلِہِ وَالْحَقُّ قَدْ یَعْتَرِیْہِ سُوْئُ تَعْبِیْرِ ’’بات کی ملمع کاری سے باطل کو خوشنما بنا دیا جاتا ہے۔ اور کبھی کبھی برے انداز بیان کی وجہ سے حق بدنما ہوجاتا ہے۔‘‘ ثابت ہوا کہ باتوں کی ملمع کاری لوگوں کے سامنے باطل کو خوشنما بنادیتی ہے۔ لیکن صاحب بصیرت حقائق پر نگاہ رکھتا ہے ظاہر کی طرف نہیں۔ چنانچہ جو بات بھی اسماء و صفات کے باب میں سلف سے منقول نہ ہو خواہ وہ الفاظ کی میناکاری اور انداز بیان کی جادوگری سے خوش نما بن جائے آپ سمجھ لیں کہ وہ باطل ہے۔ سو، اس میں نہ الجھیں۔ یہ قاعدہ علم کلام اور علم منطق پر منطبق ہوتا ہے۔ لوگوں نے اسے ملمع کر کے عقلی دلائل اور یقینی قواعد کا نام دے رکھا ہے۔ آپ ہرگز اس کی طرف مڑ کر نہ دیکھیں۔ منطق کے قواعد اور علم کلام، اللہ تعالیٰ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سلف صالحین رضی اللہ عنہم کے کلام کے برابر کیسے ہوسکتے ہیں؟ ***** قَوْلُ الْإِمَامِ الْأَدْرَمِیِّ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ: وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْأَدْرَمِیُّ (۱) لِرَجُلٍ تَکَلَّمَ بِبِدْعَۃٍ (۲) وَدَعَا النَّاسَ إِلَیْہَا (۳) ہَلْ عَلِمَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي للّٰه عليه وسلم وَاَبُوْبَکْرٍ وَّ عُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِیٌّ، أَوْلَمْ یَعْلَمُوْھَا؟ فَقَالَ: لَمْ یَعْلَمُوْھَا (۴) قَالَ: فَشَیْیٌٔ لَمْ یَعْلَمْہُ ہٰؤُلآئِ أَعَلِمْتَہُ أَنْتَ؟! (۵) قَالَ الرَّجُلُ: فَإِنِّیْ أَقُوْلُ: قَدْ عَلِمُوْھَا (۶) قَالَ أَفَوَسِعَہُمْ أَلَّا یَتَکَلَّمُوْا بِہِ وَلَا یَدْعُوا النَّاسَ إِلَیْہِ أَمْ لَمْ یَسْعَہُمْ؟ قَالَ: بَلْ وَسِعَہُمْ، قَالَ: فَشَیْیٌٔ وَسِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي للّٰه عليه وسلم وَخُلَفَائَہُ لَایَسَعُکَ أَنْتَ؟! فَانْقَطَعَ الرَّجُل۔ ترجمہ…: اس باب میں امام ادرمی رحمہ اللہ کا قول: محمد بن عبد الرحمن الادرمی رحمہ اللہ نے ایک آدمی سے، جو ایک بدعت کی بات کرتا اور لوگوں کو اس کی دعوت دیتا تھا، پوچھا، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم کے علم میں یہ بات تھی یا نہیں؟ اس نے کہا: انہیں |