Maktaba Wahhabi

87 - 440
فرماتے ہیں: ’’قِفْ حَیْثُ وَقَفَ الْقَوْمُ‘‘ یعنی جو بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام نے کی اور نہ ہی ان کے شاگردوں تابعین، تبع تابعین میں سے کسی نے کی آپ کے لیے وہ بات کرنا جائز نہیں۔ (۳)… یعنی اگر اسلاف کسی بات سے خاموش رہے ہیں تو اس کی وجہ جہالت نہیں بلکہ یہ اس لیے تھا کہ وہ اس کو جائز ہی نہیں سمجھتے تھے۔ (۴) بِبَصَرٍ: یہاں آنکھ سے مراد دل کی آنکھ ہے اور دل کی آنکھ علم اور بصیرت ہے۔ الغرض اسلاف نے جب دیکھا کہ فلاں چیز میں خیر نہیں ہے تو انھوں نے اس کے بارے میں توقف کیا، اس سے رک گئے اور اسے چھوڑ دیا۔ اس لیے آپ پر بھی لازم ہے کہ جس چیز کو انھوں نے چھوڑا اسے چھو ڑدیں، اپنے طرف سے نئی نئی عبارات اور الفاظ استعمال نہ کریں۔ کوئی نیا معنی پیش نہ کریں اور کوئی ایسی بات نہ کریں جو انھوں نے نہیں کہی۔ ***** وَلَہم عَلَی کَشْفِہَا کَانُوْا أَقْوَي (۱) وَبِالْفَضْلِ لَوْ کَانَ فِیْہَا أَحْرَي (۲)، فَلَئِنْ قُلْتُمْ: حَدَثَ بَعْدَہُمْ؛ فَمَا أَحْدَثَہُ إِلَّا مَنْ خَالَفَ ہَدَیْہُمْ وَرَغِبَ عَنْ سُنَّتِہِمْ (۳) وَلَقَدْ وَصَفُوْا مِنْہُ مَا یَشْفِیْ، وَتَکَلّمُوْ مِنْہُ بِمَا یَکْفِیْ (۴)۔ ترجمہ…: اور ان کے پاس زیادہ علمی قدرت تھی اور ان چیزوں میں کوئی فضیلت ہوتی تو وہ اس فضیلت کے زیادہ لائق تھے۔ اور اگر تم کہو: یہ تو ان کے بعد وجود میں آئی تھیں، تو ہم کہیں گے: ان کو ایجاد تو انہوں نے ہی کیا ہے جنہوں نے ان کی ہدایت کی مخالفت اور ان کی سنت سے انحراف کیا ہے۔ انہوں نے اتنا بیان کردیا جو کہ شفا دیتا ہے اور جتنا کافی تھا اس کی وضاحت کردی۔ تشریح…: (۱)… یعنی ان کے پاس علمی قدرت تھی لیکن وہ سمجھتے تھے کہ اس میں کوئی بھلائی نہیں اور اس میں دخل اندازی درست نہیں۔ اس لیے وہ اس کے بارے میں خاموش
Flag Counter