Maktaba Wahhabi

86 - 440
بہت بڑی خرابی ہے۔ چنانچہ ہر وہ بات جو سلف صالحین نے نہیں کی اس سے رکنا واجب ہے اور یہی راہ نجات ہے کیونکہ ہم سلف کے علم کو نہیں پہنچتے اور نہ ہی علم میں ان کے برابر ہیں کہ عبارات اور فقہ نصوص میں ان سے مقابلہ کرنے لگ جائیں۔ ہم اس مقام تک نہیں پہنچتے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اسلاف علم کی گہرائی اور سمجھ میں ہم سے بہت آگے تھے۔ کیونکہ انھوں نے براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے علم حاصل کیا۔ اسی لیے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ تمام لوگوں سے زیادہ علم رکھنے والے اور کم تکلف کرنے والے تھے۔ یہ ایسے لوگ تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے لیے چنا تھا۔‘‘ الغرض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تمام لوگوں سے زیادہ علم کی گہرائی میں جانے اور کم تکلف کرنے والے تھے۔ وہ تکلف نہیں کرتے تھے اور الفاظ کے پیچھے نہیں پڑتے تھے۔ بلکہ وہ تو تکلف اور عبارات کے الجھاؤ میں پڑنے کی بجائے صرف کتاب و سنت کے تقاضوں پر توجہ دیتے تھے۔ ***** وَقَالَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیْزِ رضی اللّٰه عنہ (۱) کلامًا معناہ: قِفْ حَیْثُ وَقَفَ الْقَوْمُ (۲) فَإنّہُمْ عَنْ عِلْمٍ وَقَفُوْا (۳) وَبِبَصرٍ نَافِذٍ کفُوا (۴)۔ ترجمہ…: اور جنابِ عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ کے ایک فرمان کا معنی یہ ہے کہ جہاں قوم رک جائے وہاں رک جاؤ۔ کیونکہ وہ علم کی وجہ سے ٹھہرے اور گہری نگاہ رکھنے کی وجہ سے رکے ہوں گے۔ تشریح…: (۱)… آپ عمر بن عبد العزیز بن مروان ہیں رحمہ اللہ ۔ جو کہ بنو امیہ کے خلفاء میں سے ایک عادل خلیفہ، بہت بڑے امام اور ربانی عالم تھے۔ آپ کو تجدید دین کرنے والوں کا سرخیل سمجھا جاتا ہے۔ آپ اپنے چچا سلیمان بن عبد الملک کے بعد خلیفہ بنے۔ (۲)… یہ بھی ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول سے ملتا جلتا قول ہے۔ عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ
Flag Counter