اِتَّبِعُوْا وَلَا تَبْتَدِعُوْا فَقَدْ کُفِیْتُمْ: یہ فرما کر آپ رضی اللہ عنہ نے کسی کے لیے دین میں کمی بیشی اور لوگوں کے لیے ایسے کام ایجاد کرنے کی گنجائش نہیں چھوڑی جنہیں وہ نیکی اور قرب الٰہی کا باعث سمجھتے ہوں۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جب کسی طالب علم کے دل میں کوئی ایسا خیال آئے جسے وہ اچھا سمجھتا اور اسے بیان کرنا یا لکھنا چاہتا ہو تو اس پر لازم ہے کہ یہ دیکھے؛ آیا یہ بات کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بیان ہوئی ہے یا اسلاف میں سے کسی کا یہ قول ہے؟ اگر وہ ان مصادر میں یہ چیز پالے تو بہت خوب اور اللہ کا شکر ادا کرے جس نے اسے درست چیز کی توفیق دی۔ اور اگر اسے چیز ان مصادر ثلاثہ نہ ملے تو اسے چاہیے کہ اپنے اس فعل سے باز آجائے۔ اس سے دور ہوجائے اور جان لے کہ یہ بدعت ہے۔ بعض علماء نئی عبارتیں اور نئے الفاظ بیان کرتے ہیں حالانکہ وہ اس میں درست کو غلط کردیتے ہیں۔ لہٰذا کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ اپنی طرف سے کوئی عبارت گھڑلے یا غور و فکر کرکے کوئی ایسے معانی بیان کرے جو اسلاف نے سمجھے اور بیان نہیں کیے۔ خاص طور پر اسماء و صفات کے باب میں اسے چاہیے کہ کوئی ایسی بات کہنے سے بچے جو اسلاف نے نہیں کہی۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’کُفِیتُم‘‘ لہٰذا ہمارے لیے کوئی گنجائش نہیں کہ ہم نصوص میں غور و خوض کرکے ان کی کوئی ایسی تشریح کریں جو اسلاف نے نہیں کی یا ایسی عبارات بیان کریں جو اسلاف نے بیان نہیں کیں۔ یہ ایک عظیم قاعدہ ہے کہ آپ اپنی لگام کبھی کھلی نہ چھوڑیں اور ایسے معانی بیان نہ کریں جو اسلاف نے ذکر نہیں کیے۔ خاص طور پر اسماء و صفات کے باب میں اس سے پرہیز کریں کیونکہ یہ گمراہی ہے۔ ہم نے عصر حاضر کے بہت سے ادباء اور مصنّفین دیکھے ہیں جنھوں نے اپنی من پسند عبارات اور اصطلاحات استعمال کرکے بہت سی غلطیوں کا ارتکاب کیا ہے اور یہ ایسی غلطیاں ہیں جو اس سے پہلے دیکھنے میں نہیں آئیں بالخصوص عقیدے کی کتابوں میں۔ لہٰذا یہ ایک |