مَوْصُوْفٌ بِمَا وَصَفَ بِہِ نَفْسَہُ فِیْ کِتَابِہِ الْکَرِیْمِ وَبِمَا وَصَفَہُ بِہِ نَبِیُّہُ الْعَظِیْمُ صلی اللّٰه علیہ وسلم : کیونکہ اللہ ربّ العالمین کے بارے میں سب سے زیادہ جاننے والا خود اللہ عزوجل ہے اور اس کے بعد سب سے زیادہ جاننے والا، اللہ کا رسول ہے صلی اللہ علیہ وسلم ۔ لہٰذا ہم صرف اتباع کریں گے اور اپنی طرف سے اپنی عقل و پسند کی بنیاد پر کچھ نہیں کہیں گے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے معاملے میں یہ ممنوع ہے۔ ***** وَکُلُّ مَا جَائَ فِی الْقُرْاٰنِ أَوْصَحَّ عَنِ الْمُصْطَفٰی صلی اللّٰه علیہ وسلم مِنْ صِفَاتِ الرَّحْمٰنِ وَجَبَ الْاِیْمَانُ بِہِ وَتلقیہِ بِالتَّسْلِیْمِ وَالْقُبُولِ وَتَرْکُ التَّعَرُّضِ لَہُ بِالرَّدِّ وَالتَّأْوِیْلِ، وَالتَّشْبِیْہِ وَالتَّمْثِیْلِ: ترجمہ…: اللہ تعالیٰ کی جو صفات قرآن کریم میں وارد ہیں، یارسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہیں ان پر ایمان لانا، کامل اطاعت و فرمانبرداری سے انھیں قبول کرنا، ان کی تردید، تاویل، تشبیہ اور تمثیل کی کوشش کو ترک کرنا واجب ہے۔ تشریح…: یہ ماقبل جملہ کی ہی وضاحت ہے جو کچھ بھی قرآن کریم سے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند سے ثابت ہے اس پر ایمان لانا واجب ہے۔ پس ہم اسماء و صفات کا اسی طرح اثبات کریں گے جیسے اللہ اور اس کے رسول نے کیا ہے اور ہم اپنی عقل، سوچ اور باہمی مشاورت سے کوئی چیز اس میں داخل نہیں کریں گے۔ کیونکہ یہ ایک توقیفی چیز ہے اور ہمارے لیے اس میں اضافہ کرنا جائز نہیں۔ ہم پر تو صرف تسلیم و رضا اور ایمان واجب ہے۔ ایک بندۂ مومن کی یہی صفت ہے۔ مزید برآں اللہ تعالیٰ کی اپنی کتاب میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی احادیث میں بیان کردہ صفات الٰہی میں کوئی فرق نہیں۔ صحیح احادیث میں وارد اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات پر ایمان لانا اسی طرح واجب ہے جیسا کہ قرآن کریم میں وارد اسماء و صفات پر۔ بخلاف ان گمراہ لوگوں کے جو تمام احادیث کو یا |