Maktaba Wahhabi

439 - 440
ہرگز نہ دیکھے گا۔ اور لیکن اس پہاڑ کی طرف دیکھ۔ سو اگر وہ اپنی جگہ برقرار رہا تو عنقریب تو مجھے دیکھ لے گا۔ چنانچہ جب اس کے ربّ نے پہاڑ پر تجلی فرمائی تو اسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰ بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ پھر جب اسے ہوش آیا تو اس نے کہا تو پاک ہے۔ میں نے تیری طرف توبہ کی اور میں ایمان لانے والوں میں سب سے پہلا ہوں۔‘‘ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کے نزدیک دیدار میں ایک رکاوٹ حائل تھی۔ اور وہ ہے انسان کا اس دنیا میں عاجز ہونا۔ اور جس چیز میں کوئی رکاوٹ حائل ہو وہ بذات خود محال نہیں ہوتی۔ بلکہ فی نفسہ وہ ممکن ہوتی ہے۔ وہ مانع ہوتا ہے جو اس کو انسان کے لیے ممنوع بنا دیتا ہے۔ سوال : جناب شیخ! کیا ایک شخص کے لیے زیادہ محفوظ راستہ یہ نہیں کہ وہ تقدیر پر مجمل ایمان لائے جو چاروں مراتب پر مشتمل ہو۔ لیکن وہ ان تفصیلات میں نہ جائے جو انسان کو پریشانی کا شکار بنا دیتی ہیں۔ مثلاً کسی شخص کے جنت یا جہنم میں جانے کے بارے میں سوال کرنا باوجودیکہ اللہ تعالیٰ کو علم تھا کہ وہ کفر کریں گے اور یہی اللہ تعالیٰ نے چاہا بھی۔ تو کیا زیادہ محفوظ راستہ مجمل ایمان، تسلیم و قبول اور سکوت اختیار کرنے کا ہے یا تفصیلات کے بارے میں سوال کرنے کا۔ جواب : عقیدے کو اس کی تفصیلات کے ساتھ جاننا ضروری ہے۔ ان تفصیلات میں قضاء و قدر کا مسئلہ بھی ہے۔ یہ انسان پر حسب استطاعت واجب ہے۔ اگر اس کے پاس استطاعت ہو تو اس کے لیے تفصیلات کو جاننا ضروری ہے۔ اور اگر استطاعت نہیں تو مجمل عقیدے کا علم کافی ہے اور یہ چار مراتب قرآن کریم اور احادیث میں مذکور ہیں۔ یہ گمراہ کن چیزوں میں سے نہیں جیسا کہ سائل نے کہا ہے۔ بلکہ یہ کتاب و سنت میں مذکور ہیں۔ چنانچہ ان کی معرفت حاصل کرنا اور اس حد تک ان میں پختگی پیدا کرنا ضروری ہے کہ انسان اس معاملے میں صاحب بصیرت بن جائے اور گمراہ یا بھٹکے ہوئے لوگوں کے ساتھ خود گمراہ نہ ہو۔
Flag Counter