Maktaba Wahhabi

438 - 440
ہے۔ جبکہ مؤلف نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ اس حدیث کا کیا حکم ہے؟ جواب : جب اکثر یا تمام اہل حدیث کسی حدیث کو ضعیف کہہ دیں تو ہم بھی اسے ضعیف کہیں گے۔ اور اگر ان کا اختلاف ہو، بعض اسے صحیح کہتے ہیں، بعض ضعیف کہتے ہوں اور بعض حسن قرار دیتے ہوں تو بلاشبہ شرعی قواعد کے مطابق ترجیح کی صورت اختیار کی جائے گی۔ جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے تو اس معنی کی بہت سی احادیث ملتی ہیں جو اچھے انداز میں تلاوت کرنے اور اس کا اہتمام کرنے پر دلالت کرتی ہیں۔ سوال : شیخ اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت فرمائیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ ’’دنیا میں اللہ تعالیٰ کا دیدار ناممکن ہے۔‘‘ دنیا میں دیدار الٰہی صرف اس لیے نہیں ہوتا کہ لوگوں کے اندر اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی قوت نہیں، تو کیا لوگوں کی دیدار الٰہی کے سلسلے میں کمزوری اللہ کے دیدار کے محال ہونے کا سبب نہیں؟ جواب : اللہ تعالیٰ کا دیدار فی نفسہ محال نہیں۔ رہی لوگوں کی قوت تو یہ الگ چیز ہے۔ مذکورہ قول کے قائل نے یہ نہیں کہا کہ لوگوں کے لیے اللہ کو دیکھنا محال ہے۔ بلکہ اس نے رؤیت کو محال کہا ہے۔ ہم کہتے ہیں: یہ غلط ہے۔ کیونکہ موسیٰ علیہ السلام ایک محال چیز کا سوال نہیں کرسکتے تھے اور نہ ہی کسی ناجائز چیز کا سوال کرسکتے تھے۔ کیونکہ وہ کلیم اللہ تھے اور اللہ تعالیٰ کے متعلق زیادہ جانتے تھے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی یہ نہیں فرمایا کہ مجھے دیکھا نہیں جاسکتا۔ بلکہ یہ فرمایا کہ: ﴿وَ لَمَّا جَآئَ مُوْسٰی لِمِیْقَاتِنَا وَ کَلَّمَہٗ رَبُّہٗ قَالَ رَبِّ اَرِنِیْٓ اَنْظُرْ اِلَیْکَ قَالَ لَنْ تَرٰینِیْ وَ لٰکِنِ انْظُرْ اِلَی الْجَبَلِ فَاِنِ اسْتَقَرَّ مَکَانَہٗ فَسَوْفَ تَرٰینِیْ فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہٗ لِلْجَبَلِ جَعَلَہٗ دَکًّا وَّ خَرَّ مُوْسٰی صَعِقًا فَلَمَّآ اَفَاقَ قَالَ سُبْحٰنَکَ تُبْتُ اِلَیْکَ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ،﴾ (الاعراف:۱۴۳) ’’اور جب موسیٰ ہمارے مقررہ وقت پر آیا اور اس کے رب نے اس سے کلام کیا تو اس نے کہا: اے میرے رب ! مجھے دکھا کہ میں تجھے دیکھوں۔ فرمایا؛ تو مجھے
Flag Counter