پر دلالت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے علو کے باوجود اپنی تمام مخلوقات کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ اللہ پر کوئی چیز مخفی نہیں وہ آسمانوں کے اوپر ہے اور اس کا علم و احاطہ ہر جگہ پر ہے۔ سوال : بدعتیوں کے اس قول سے کیا مراد ہے کہ ’’قرآن مخلوق ہے‘‘ لفظ مخلوق کا کیا معنی ہے؟ کیا بدعتیوں کی اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے جبریل کے سینے میں پیدا کیا تھا؟ مجھے امید ہے کہ آپ مزید وضاحت فرما دیں گے۔ جواب : ان کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کلام نہیں کرتا بلکہ اس کلام کو جبریل علیہ السلام میں پیدا کیا اور جبریل اللہ تعالیٰ کے ارادے کو بیان کرتے ہیں۔ یا اللہ نے اسے لوح محفوظ میں پیدا کیا اور جبریل نے لوح محفوظ سے اسے حاصل کیا۔ ان کا یہ کہنے کا؛ مقصد اللہ تعالیٰ کی صفت کلام کی نفی کرنا ہے۔ جیسا کہ وہ دیگر تمام صفات الٰہی کی نفی کرتے ہیں۔ اس سے ان کا مقصد کفر و الحاد ہے۔ لیکن وہ واضح طور پر یہ کام نہیں کرتے بلکہ خفیہ طریقوں سے اپنا مقصد پورا کرتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو حقیقتاً بولا ہے۔ جبریل نے اس کے حکم سے اسے سنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا۔ رسول نے اسے امت تک پہنچایا اور امت نے اسے اپنی آئندہ نسلوں تک منتقل کیا اور یہ سلسلہ قیامت تک چلتا رہے گا۔ سوال : جناب بعض گمراہ فرقوں کا زعم باطل ہے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کے کلام کی تعبیر ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ کلام الٰہی کی حکایت ہے۔ تو عبارت اور حکایت میں کیا فرق ہے؟ جواب : دونوں کا ایک معنی ہے۔ لیکن ماتریدیہ کہتے ہیں؛ یہ اللہ تعالیٰ کے کلام کی حکایت ہے عبارت (تعبیر) نہیں۔ جبکہ اشاعرہ کا قول یہ ہے کہ؛ یہ کلام الٰہی کی تعبیر ہے اور اشاعرہ و ماتریدیہ دونوں کا کہنا ہے کہ یہ جو مصاحف میں ہے یہ کلام اللہ نہیں۔ کیونکہ کلام اللہ ایک صفت ہے جو ذات باری تعالیٰ کے ساتھ قائم ہے۔ لیکن قرآن جبریل علیہ السلام یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام ہے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے کلام کو اپنے لفظوں میں بیان کیا ہے اور اس کی تعبیر کی ہے۔ لہٰذا یہ عبارت ہے۔ ماتریدیہ کہتے ہیں: یہ حکایت ہے۔ کیونکہ ان کے بقول عبارت کا لفظ حکایت سے زیادہ دقیق ہے۔ حکایت کا لفظ خفیف ہے۔ جب اسے عبارت کہا جائے تو اس کا معنی یہ |