Maktaba Wahhabi

433 - 440
میں مطلق جہت مذکور نہیں۔ علاوہ ازیں جب نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفہ میں اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے خطاب فرمایا اور ان سے پیغام رسالت پہنچادینے کی گواہی طلب کی تو آپؐ نے اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھایا اور فرمایا: ’’اَللّٰہُمَّ اشْہَدْ‘‘[1] ’’اے اللہ گواہ بن جا۔‘‘ آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی طرف اپنے ہاتھوں کے ساتھ اشارہ فرمایا پھر انہیں لوگوں کی طرف لوٹایا اور فرمایا: ’’اَللّٰہُمَّ اشْہَدْ۔‘‘ ’’اے اللہ گواہ ہوجا۔‘‘ یہ حدیث اللہ تعالیٰ کے لیے جہت علو کے اثبات میں واضح ہے۔ سوال : جناب شیخ! آپ نے فرمایا کہ استواء ایک فعلی صفت ہے، اس کا ایک معنی علو بھی ہے اور بلاشبہ علو صفت ذاتی ہے؟ امید ہے کہ آپ اس کی وضاحت فرمادیں گے۔ جواب : ’’علو‘‘ اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفت ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی مخلوق سے بلند رہتا ہے۔ جبکہ استواء ایک فعلی صفت ہے۔ وہ جب چاہتا ہے ایسا کرتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اسے ’’ثم‘‘ کے لفظ کے ساتھ ترتیب سے بیان کیا ہے۔ جبکہ علو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حق میں ثابت ہے۔ گویا استواء علو کی ایک قسم ہے۔ وہ جب چاہتا ہے ایسا کرتا ہے لیکن مطلق علو، اللہ تعالیٰ کے لیے دائمی اور ابدی طور پر ثابت ہے۔ سوال : جناب شیخ! اگر کوئی شخص فرمان باری تعالیٰ: ﴿تَجْرِیْ بِأَعْیُنِنَا﴾ (القمر:۱۴) کی تفسیر ’’بِأَمْرِنَا‘‘ کے ساتھ کرتا ہے تو کیا اس کو تاویل شمار کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ جواب : یہ واضح تاویل ہے۔ بِاَعْیُنِنَا کا معنی ہے: ہمارے دیکھتے ہوئے۔ چنانچہ اس میں اللہ تعالیٰ کے دیکھنے اور اللہ تعالیٰ کی آنکھ کا اثبات ہے۔ لہٰذا ’’تَجْرِیْ بِاَعْیُنِنَا‘‘ کا معنی ہے ہماری نظروں کے سامنے۔ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہے تھے۔ اس کا خیال رکھ رہے تھے اور اسے چلا رہے تھے۔
Flag Counter