واضح ہیں۔ اسی لیے جب امام مالک رحمہ اللہ سے استواء کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: ’’استواء معلوم ہے (یہ نہیں فرمایا کہ استواء کا معنی اللہ کے سپرد ہے بلکہ فرمایا استواء معلوم ہے یعنی اس کا معنی معلوم ہے) البتہ کیفیت نامعلوم ہے۔‘‘ (گویا امام مالک رحمہ اللہ نے معنی اور کیفیت میں فرق کیا ہے) اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس کے متعلق سوال کرنا بدعت ہے (یعنی اس کی کیفیت کے متعلق۔) سائل نے آپ سے کہا تھا: اللہ تعالیٰ عرش پر کیسے مستوی ہے؟ گویا اس نے کیفیت کے متعلق سوال کیا تھا، استواء کے معنی کے متعلق نہیں۔ اسلاف سے لے کر بعد میں آنے والے لوگوں تک اہل سنت والجماعت لسف صالحین اہل حق میں سے کسی نے تمام صفات یا چند صفات میں تفویض نہیں کی۔ بلکہ وہ ان کی ایسی تفسیر کرتے تھے جس پر الفاظ دلالت کرتے تھے اور وہ ان کے معانی پر ایمان رکھتے تھے۔ صرف کیفیت کو اللہ کے سپرد کرتے تھے۔ سوال : جناب شیخ! اس حدیث کی صحت کیسی ہے: ’’یَعْجِبُ رَبُّکَ مِنَ الشَّابِّ لَیْسَ لَہُ صَبْوَۃٌ ‘‘[1] ترجمہ: ’’تیرا رب اس نوجوان سے تعجب کرتا ہے جس کے لیے میلان نہ ہو۔‘‘ اور اگر یہ ضعیف ہے تو وہ کون سی صحیح دلیل ہے جس پر اس (صفت) کی بنیاد ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ کی صفت تعجب پر کوئی اور دلیل ہے؟ جواب : جی ہاں! قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ بہت سی ایسی چیزیں ذکر کرتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے افعال پر تعجب کرتا ہے۔ سوال : جناب شیخ! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لونڈی سے یہ فرمانا جہت کے اثبات کی دلیل نہیں؟ ’’اَیْنَ اللّٰہُ؟ [2] ’’اللہ کہاں ہے؟‘‘ جواب : جی ہاں! اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ حدیث جہت علو کے اثبات کی دلیل ہے۔ اس |
Book Name | شرح لمعۃ الاعتقاد دائمی عقیدہ |
Writer | امام ابو محمد عبد اللہ بن احمد بن محمد ابن قدامہ |
Publisher | مکتبہ الفرقان |
Publish Year | |
Translator | ابو یحیٰی محمد زکریا زاہد |
Volume | |
Number of Pages | 440 |
Introduction |