سوال : جناب شیخ! کیا عقیدہ کے باب میں یہ قاعدہ درست ہے: ’’مَا خَطر بِبَالِکَ، فَاللّٰہُ مُخَالِفٌ لِذَالِکَ۔‘‘ ویسا نہیں جو (صورت) تیرے ذہن میں آئے۔ اللہ تعالیٰ اس کے خلاف ہے (یعنی اس جیسا نہیں)۔‘‘ جواب : اس کا معنی صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے تصور و خیال کے برخلاف ہے۔ کیونکہ وہ ہر چیز سے بڑا ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَ مَا خَلْفَہُمْ وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِہٖ عَلْمًا﴾ (طہ:۱۱۰) ’’وہ جانتا ہے جو ان کے سامنے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے اور وہ علم سے اس کا احاطہ نہیں کرسکتے۔‘‘ الغرض اللہ تعالیٰ کو خود اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ نہ کوئی اس کا احاطہ کرسکتا ہے۔ نہ عقل اس کا تصور کرسکتی ہے اور نہ ہی فہم سے اس کی صورت سمجھی جاسکتی ہے۔ سوال : جناب شیخ! کیا اس عبارت کو اسماء و صفات کے قواعد میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ ’’ناموں میں مشابہت سے صفات میں مماثلت لازم نہیں آتی۔‘‘ جواب : یہ درست ہے کہ اسماء اور معانی میں مشابہت سے کیفیت میں مشابہت لازم نہیں آتی۔ یہ ایک واضح بات ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات مخلوق کے اسماء و صفات کے ساتھ لفظی اعتبار سے مشترک ہیں، ان کا معنی بھی مشترک ہے لیکن کیفیت اور حقیقت مختلف ہے۔ سوال : کیا درج ذیل آیت سے استدلال کرتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا چہرہ ہر جگہ اور تمام جہات میں ہے؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ﴾ (البقرہ:۱۱۵) ’’تم جس طرف رخ کرو، سو وہیں اللہ کا چہرہ ہے۔ ‘‘ جواب : اس آیت کی کئی تفاسیر ہیں۔ مشہور تفسیر یہ ہے کہ یہاں ’’وجہ‘‘ سے مراد قصد ہے۔ یعنی تم اپنی نماز میں جو بھی قصد کرو اور جس جہت میں بھی رخ کرو تم یقینا شرعی سمت میں ہی رخ کرو گے۔ یہ ارشاد اللہ تعالیٰ کے حکم کے اعتبار سے ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہیں بیت المقدس |
Book Name | شرح لمعۃ الاعتقاد دائمی عقیدہ |
Writer | امام ابو محمد عبد اللہ بن احمد بن محمد ابن قدامہ |
Publisher | مکتبہ الفرقان |
Publish Year | |
Translator | ابو یحیٰی محمد زکریا زاہد |
Volume | |
Number of Pages | 440 |
Introduction |