(۳) ذاتیہ فعلیہ۔ مثال سے وضاحت فرمائیں، اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔ جواب : صفات ذاتیہ کی مثالیں یہ ہیں: چہرہ، ہاتھ، انگلیاں اور قدم۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے۔ صفات فعلیہ کی مثالیں یہ ہیں: اترنا، آنا، مستوی ہونا، پیدا کرنا، عطا کرنا، زندہ کرنا، مارنا وغیرہ۔ سوال : جناب شیخ! ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَہُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ﴾ (الحدید:۴) ’’اور وہ تمھارے ساتھ ہے، جہاں بھی تم ہو ۔‘‘ کیا ’’معکم‘‘ کا ترجمہ یہ کرنا تاویل نہیں تمہارے ساتھ ہے اپنے علم کی بناء پر؟ جواب : یہ تاویل نہیں۔ کیونکہ لغت میں معیت کے کئی معانی ہیں۔ ان میں سے ایک معنی ہے: اختلاط کے بغیر قریب ہونا اور ساتھی بننا۔ (مَازِلْنَا نَمْشی وَالْقمرُ مَعنا) آپ کہتے ہیں: ’’ہم چلتے رہے جبکہ چاند ہمارے ساتھ تھا۔‘‘ تو چاند اگرچہ آسمان پر ہے لیکن وہ آپ کے ساتھ ہوتا ہے۔ یعنی آپ کے سفر میں آپ کا ساتھی ہوتا ہے۔ وہ آپ سے چھپتا نہیں۔ آپ اس کی روشنی میں چلتے ہیں۔ مخلوق کی یہ صورت حال ہے تو خالق کا کیا عالم ہوگا؟ جب چاند آسمان پر ہوتے ہوئے بھی آپ کے ساتھ ہوسکتا ہے اور لغت میں یہ تعبیر بھی صحیح ہے تو خالق کے لیے کیوں نہیں ہوسکتی؟ وہ عرش کے اوپر بلندیوں میں ہوتے ہوئے بھی اپنے علم اور احاطے کے اعتبار سے اپنے بندوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ سوال : جناب شیخ! آپ کی سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے نماز تراویح کے متعلق اس قول کے بارے میں کیا رائے ہے؟ ’’نِعْمَ الْبِدْعَۃُ ہٰذہ‘‘ ’’یہ ایک اچھی بدعت ہے‘‘ جواب : ہم جانتے ہیں کہ نماز تراویح بدعت نہیں۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ تین یا چار راتوں تک نماز تراویح ادا کی اور اس ڈر سے چھوڑی کہ کہیں یہ نماز فرض قرار نہ دے دی جائے۔ لہٰذا نماز تراویح دین میں بدعت نہیں۔ بلکہ یہ ایک سنت ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاری کیا تھا۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مراد صرف لغوی بدعت تھی نہ کہ شرعی بدعت۔ اہل علم اس سوال کا یہی جواب دیتے ہیں۔ |