ہم کہتے ہیں: اللہ عرش پر حقیقی طور پر مستوی ہے وہ عرش سے بلند و بالا ہے۔ اسے عرش کی کوئی حاجت نہیں، بلکہ عرش اس کا محتاج ہے۔ یہ کہنا کہ وہ عرش سے چھو نہیں رہا یا اس طرح نہیں ہے۔ یہ زائد باتیں ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں کی۔ سوال : جناب شیخ! ہم ان لوگوں کی کیسے تردید کریں جو امام نووی، ابن حجر رحمہما اللہ وغیرہ جیسے بعض معتبر، متقدمین علماء کی تاویلات کو دلیل بناتے ہیں۔ ہم ان کبار علماء کا کیا عذر پیش کریں؟ جواب : ہم کہیں گے: یہ کبار علماء ہیں۔ سنت رسول کی حفاظت میں ان کابہت بڑا مقام ہے اگرچہ ان سے صفات کے مسئلہ میں کچھ غلطیاں ہوئی ہیں۔ ان صفات کو بیان کیا جائے، ان کی وضاحت کی جائے اور اس معاملہ میں ان کبار علماء کی تائید نہ کی جائے۔ یہ غلطیاں ان کے علم و فضل میں کمی نہیں کرتیں۔ سوال : اس شخص کا کیا حکم ہے جو کہتا ہے ’’تقدیر نے چاہا‘‘ مثلاً کوئی یوں کہے: ’’میں اس سے تعلقات کرنا چاہتا تھا لیکن تقدیر نے چاہا کہ میں نہ آؤں‘‘ جواب : کسی فعل کو اللہ کی صفت کی طرف منسوب کرکے یہ کہنا جائز نہیں۔ ’’تقدیر نے چاہا‘‘ یا ’’اللہ کے ارادہ نے چاہا‘‘ یا اس جیسے دوسرے الفاظ۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے: ’’اللہ نے چاہا، اللہ نے مقدر کیا۔‘‘ الغرض افعال کی نسبت اللہ کی طرف کرنی چاہیے نہ کہ اس کی صفات کی طرف۔ سوال : جناب شیخ! کیا اللہ تعالیٰ کی حیات کی قسم کھانا شرک ہے یا نہیں؟ جواب : اللہ تعالیٰ کی صفات کی قسم کھانا توحید ہے نہ کہ شرک۔ کیونکہ قسم یا تو اللہ تعالیٰ کی ذات کی ہوتی ہے یا اس کے اسماء و صفات کی۔ اور اللہ تعالیٰ کی حیات، اس کے چہرے، اس کے کلام اور اس کی آیات قرآنیہ کی قسم یہ سب اس کے اسماء و صفات کی ہی قسمیں ہیں جو درست قسمیں ہیں اور یہی توحید ہے۔ سوال : جناب شیخ! صفات کی درج ذیل قسمیں بنانے کا کیا حکم ہے؟ (۱) ذاتیہ (۲) فعلیہ |
Book Name | شرح لمعۃ الاعتقاد دائمی عقیدہ |
Writer | امام ابو محمد عبد اللہ بن احمد بن محمد ابن قدامہ |
Publisher | مکتبہ الفرقان |
Publish Year | |
Translator | ابو یحیٰی محمد زکریا زاہد |
Volume | |
Number of Pages | 440 |
Introduction |