Maktaba Wahhabi

426 - 440
جواب : ان کا کتاب ہذا والا کلام ہی معتبر ہے۔ لیکن انہوں نے صفات کی دو قسمیں کی ہیں: (۱) واضح (۲) مشکل۔ اور یہ تقسیم غلط ہے۔ کیونکہ تمام واضح ہیں، ان میں کوئی بھی مشکل نہیں۔ البتہ ’’روضۃ الناظر‘‘ میں انہوں نے متاخرین اصولیوں مثلاً اشاعرہ وغیرہ کے کلام پر ادراج کیا ہے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ’’روضۃ الناظر‘‘ غزالی کی کتاب ’’المستصفی‘‘ کا اقتباس ہے اور غزالی اشعری ہیں۔ ان سے بسا اوقات یہ عبارت رہ گئی ہے۔ سوال : جناب شیخ! عبداللہ ابن مبارک کے متعلق منقول ہے کہ جب ان سے یہ سوال کیا گیا: ہم اپنے رب کو کیسے پہچانیں؟ تو انہوں نے جواب دیا، ہم اسے اس طرح پہچانتے ہیں کہ وہ آسمانوں سے اوپر عرش پر مستوی ہے۔ ان سے پوچھا گیا، کسی حد کے ساتھ؟ تو انہوں نے جواب دیا: ہاں حد کے اندر۔ پھر مصنف رحمہ اللہ نے جس حد کی نفی کی ہے اس کے درمیان اور ابن مبارک رحمہ اللہ کی ثابت کردہ حد کے درمیان کیا فرق ہے؟ جواب : ابن مبارک رحمہ اللہ کبھی کوئی غلط معنی مراد نہیں لے سکتے۔ کیونکہ وہ ائمہ سلف میں سے ہیں۔ حد سے ان کی مراد حقیقت ہے یعنی اللہ تعالیٰ عرش پر حقیقتاً مستوی ہیں۔ سوال : کویت میں ایک داعی امام نے ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ عرش پر اس طرح مستوی ہے کہ وہ عرش سے چھو نہیں رہا۔ اور اس کے لیے انہوں نے کتاب ’’شرح السنہ‘‘ سے دلیل دی۔ حتیٰ کہ جب اس سے ان طلبہ نے استواء کی کیفیت کے متعلق دریافت کیا جن کے سامنے وہ کتاب کی تشریح کر رہا تھا تو اس نے کہا: اللہ تعالیٰ عرش پر بیٹھے ہوئے نہیں ہیں۔ جو لوگ اس کے خلاف کوئی بات کرتے ہیں یہ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ آپ جناب کی اس قول کے بارے میں کیا رائے ہے اور ان کی تردید کا طریقہ کیا ہے؟ جواب : دعوۃ کے اماموں میں سے کوئی امام ایسی بات نہیں کرتا۔ بلکہ وہ کہتے ہیں: اللہ عرش پر مستوی ہے۔ وہ یہ نہیں کہتے کہ اللہ عرش کو چھو رہا ہے یا نہیں۔ کیونکہ کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نہ اس کی نفی وارد ہے اور نہ اثبات۔
Flag Counter