Maktaba Wahhabi

416 - 440
ہمارے لیے اس غلطی کی پیروی کرنا جائز نہیں۔ اجتہاد قابل تعریف ہے اور اس میں اختلاف قابل مذمت نہیں۔ کیونکہ یہ خواہش پرستی کا نتیجہ نہیں بلکہ حق کی تلاش اور اجتہاد کا نتیجہ ہے۔ لیکن اگر شہوت اور خواہش پرستی کی وجہ سے اختلاف کیا جائے تو یہ جائز نہیں۔ یعنی انسان صرف اپنی خواہش اور چاہت کے موافق چیزوں کو نہ لے کیونکہ یہ مذموم ہے۔ البتہ اگر اس کے پاس علمی اہلیت اور تحقیق و جستجو کی صلاحیت ہو تو اس پر اجتہاد کرنا واجب اور کسی دوسرے کی تقلید کرنا حرام ہے۔ تاکہ وہ از خود حکم کو پہچانے یا اس کے قریب قریب پہنچ جائے۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((سَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا۔)) [1] ’’سیدھے ہوجاؤ اور قریب قریب ہوجاؤ۔‘‘ التسدید: سے مراد حق کو پالینا ہے اور مقاربۃ سے مراد حق کے قریب ہونا ہے۔ خواہ حق تک رسائی نہ ہو۔ لیکن اگر کوئی کوشش کرتا ہے اور محنت صرف کرتا ہے تو یہی وہ فقہی اجتہاد ہے جس کا دفاع طلب دلیل اور طلب حکم شرعی سے ہوتا ہے۔ یہ قابل تعریف ہے، قابل مذمت نہیں۔ ائمہ اربعہ کی طرف نسبت کرکے اپنے آپ کو حنبلی، مالکی، شافعی، حنفی کہنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ تعصب نہ ہو۔ بلکہ جب دلیل مل جائے تو اسے لے لے خواہ وہ اس بات کے امام کے مذہب میں نہ ہو۔ ایک حنفی کو جب شافعی کے پاس دلیل مل جائے تو شافعی کے قول کو قبول کرنا اس پر واجب ہے۔ ایک حنبلی کو اگر مذہب مالکی کے حق میں دلیل مل جائے تو اس پر امام مالک کے قول کو قبول کرنا واجب ہے۔ کیونکہ وہ ہمیں یہی وصیت کیا کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے: ’’تم ہمارے اقوال کو تب تک نہ لو جب تک تمہیں ان اقوال کی دلیل نہ مل جائے۔‘‘ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے تھے:
Flag Counter