میں۔ کیونکہ ان کا دارومدار استنباط و اجتہاد پر ہوتا ہے۔ ہمیں صرف فقہی اور نئے پیش آمدہ مسائل و حادثات میں اجتہاد کرنے اور کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا حکم معلوم کرنے پر مامور کیا گیا ہے۔ کیونکہ ان مسائل کے متعلق نص موجود نہیں ہوتی۔ جن مسائل میں نص آگئی ہے ان کے بارے میں کوئی بحث کی ضرورت نہیں۔ مثلاً سود، زنا، شراب، منشیات اور قطع رحمی کی حرمت نصوص میں وارد ہے۔ ان میں اجتہاد کی ضرورت نہیں۔ ان میں صرف راہ تسلیم و اطاعت کو اختیار کرنا چاہیے۔ مباح چیزوں کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ نے نص ارشاد فرما دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خرید و فروخت کو حلال کیا ہے۔ اس میں اختلاف کی اجازت نہیں۔ کیونکہ اس کے حلال ہونے پر اللہ تعالیٰ نے نص بیان فرما دی ہے۔ تمام اشیاء دراصل حلال ہیں سوائے ان چیزوں کے جن کے ممنوع ہونے پر کتاب و سنت کی کوئی دلیل وضاحت کرے۔ فقہاء و مجتہدین کا میدان وہ فرعی مسائل ہیں جن کا حکم نص میں بیان نہیں ہوا۔ اسی لیے اجتہادی مسائل میں علماء کا اختلاف ہوگیا اور اس سلسلہ میں چار مذاہب وجود میں آگئے: مذہب ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ ، مذہب مالک بن انس رحمہ اللہ ، مذہب محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ ، اور مذہب احمد بن حنبل رحمہ اللہ ۔ بایں معنی کہ ان تمام ائمہ میں سے ہر ایک کا اجتہاد و استنباط کا اپنا طریقہ تھا۔ ان میں سے ہر ایک حق کا متلاشی اور دلیل کا طلبگار تھا۔ عالم کے لیے کسی کی تقلید کرنا جائز نہیں جبکہ وہ خود دلیل کو پہچان سکتا اور حکم کو تلاش کرسکتا ہو۔ وہ اپنی طاقت کے مطابق اجتہاد کرے اور کسی کی تقلید نہ کرے۔ تقلید البتہ ایک عام آدمی اور ابتدائی طالب علم کے لیے جائز ہے۔ جبکہ عالم پر اجتہاد کرنا واجب ہے اور اجتہاد کے بعد وہ جس نتیجے پر پہنچے اسی پر عمل کرے۔ اگر اس کا اجتہاد درست ہوا تو اسے دوگنا ثواب ملے گا۔ ایک اجر اجتہاد کرنے کا اور دوسرا صحیح نتیجے تک پہنچنے کا۔ اور اگر اس کا اجتہاد غلط ہوبھی گیا تو اسے اجتہاد کرنے کا ایک اجر مل جائے گا۔ اور اللہ تعالیٰ اس کی غلطی کو معاف کردے گا۔ لیکن |