یعنی ان کے معاملے کو مؤخر کردے تاآنکہ تو اچھی طرح غور و فکر کرلے۔ جادوگروں کو بلالے اور لوگوں کے سامنے انکا مقابلہ کروا۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کے ارادے کی وجہ سے ہوا۔ انہوں نے سمجھا کہ موسیٰ جادوگر ہے اور جب وہ اپنے جادوگروں کو اس کے بالمقابل لے آئیں گے تو انہیں غلبہ حاصل ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے برعکس کام کیا۔ اس نے یہ بات واضح کردینے کا ارادہ کیا کہ موسیٰ علیہ السلام اللہ ربّ العالمین کی طرف سے آئے ہیں اور موسیٰ علیہ السلام کے پاس جو معجزات ہیں جادو ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ لہٰذا اس عظیم اجتماع میں جادو کا باطل ہونا ظاہر ہوگیا۔ جادوگر توبہ کرکے اللہ کے حضور سربسجود ہوگئے۔ کیونکہ وہ جان گئے تھے کہ جو موسیٰ کے پاس ہے وہ حق ہے۔ وہ اصحاب فن اور اصحاب دانش تھے، جادو کو پہچانتے تھے۔ وہ جان گئے کہ جو موسیٰ کے پاس ہے وہ کسی انسان کی صنعت نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ معجزہ اور موسیٰ علیہ السلام کی سچائی کی علامت ہے۔ چنانچہ وہ آپ علیہ السلام پر ایمان لے آئے۔ مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں ہماری دلیل کے یہ الفاظ ہیں: ’’أرجہ وأخاہ۔‘‘ یعنی یہاں ارجہ کا معنی ہے: ’’تو اس کو مؤخر کردے‘‘ اور یہی ارجاء ہے۔ لیکن ارجاء سے ہماری یہاں مراد اعمال کو ایمان سے مؤخر کرنا ہے۔ مرجئہ کہتے ہیں: اعمال ایمان میں داخل نہیں ہیں۔ گویا انہوں نے اعمال کو حقیقت ایمان اور اسم ایمان سے مؤخر کردیا اور اعمال و ایمان کو دو مختلف چیزیں بنادیا۔ یہ مرجئہ ہیں اور ان کے چار فرقے ہیں۔ پہلا فرقہ…: پہلا فرقہ جہمیہ ہے جو محض معرفت قلبی کو ایمان سمجھتے ہیں خواہ کوئی ایک عمل بھی نہ کرے، عقیدہ بھی نہ رکھے، تصدیق بھی نہ کرے اور اقرار بھی نہ کرے اگر وہ دل میں معرفت رکھتا ہے تو وہ مومن ہے۔ اس عقیدے کے مطابق فرعون بھی مومن ہے۔ کیونکہ وہ بھی پہچانتا تھا کہ موسیٰ علیہ السلام جو شریعت لائے ہیں وہ سچی ہے۔ لیکن وہ تکبر اور سرکشی کی وجہ سے انکار پر ڈٹا رہا۔ |