طالب رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کیا، ان کی اطاعت سے نکل گئے، انہیں کافر قرار دیا اور ان سے جنگ کی تھی۔ پہلے پہل ان کی معیت میں جہاد کرتے تھے۔ پھر جب صفین کے معرکہ میں ان کی خواہش کے خلاف سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اور اہل شام کے درمیان تحکیم کا معاملہ طے پایا تو انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو غلط اور کافر قرار دی دیا۔ حالانکہ پہلے انہوں نے ہی سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو تحکیم قبول کرنے پر مجبور کیا تھا ۔ جناب امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے مجبوراً اسے قبول کیا۔ ورنہ وہ تادم آخر جنگ جاری رکھنا چاہتے تھے۔ کہنے لگے تو نے لوگوں کو حاکم بنادیا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ﴾ (الانعام:۵۷) ’’فیصلہ اللہ کے سوا کسی کے اختیار میں نہیں۔‘‘ الغرض انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کیا۔ اطاعت کی لاٹھی توڑ ڈالی اور باہم مل گئے۔ چنانچہ امیر المومنین سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے جنگ نہروان میں ان کے خلاف قتال کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ رضی اللہ عنہ کی مدد فرمائی اور آپ نے ان کو بری طرح قتل کیا اور مسلمانوں کو ان کے شر سے نجات دلائی۔ لیکن یہ مذہب آج تک باقی ہے۔ ان کے عقائد میں سے ایک عقیدہ یہ ہے کہ اس امت میں کبیرہ گناہوں کے مرتکب کافر ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ زانی، چور، شرابی اور دیگر کسی کبیرہ گناہ کا مرتکب کافر ہے اور ملت اسلامیہ سے خارج ہے۔ یہ عقیدہ کتاب و سنت اور حق کے خلاف ہے۔ اہل سنت والجماعت سلفی اہل حق کا عقیدہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں سے کبیرہ گناہ کا مرتکب فاسق ہے۔ اس کے ایمان میں نقص آجاتا ہے لیکن وہ کافر نہیں۔ اور یہی درست مذہب ہے۔ الغرض یہ دو جرائم کے مرتکب ہوئے۔ پہلا جرم مسلمان حکمرانوں کے خلاف خروج کرنا اور اسے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر خیال کرنا۔ حالانکہ یہ کام بذات خود منکر (برائی) ہے نیکی نہیں۔ |
Book Name | شرح لمعۃ الاعتقاد دائمی عقیدہ |
Writer | امام ابو محمد عبد اللہ بن احمد بن محمد ابن قدامہ |
Publisher | مکتبہ الفرقان |
Publish Year | |
Translator | ابو یحیٰی محمد زکریا زاہد |
Volume | |
Number of Pages | 440 |
Introduction |