ثابت ہوں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ﴾ (الانفال:۶۰) ’’اور ان کے (مقابلے کے) لیے قوت سے اور گھوڑے باندھنے سے تیاری کرو، جتنی کر سکو۔‘‘ مِنْ قُوَّۃٍ: یہ امر کے سیاق میں نکرہ آیا ہے۔ لہٰذا اس میں ہر قسم کی وہ قوت داخل ہے جو زمان و مکان کا تقاضہ ہو۔ اگر ہم جدید تباہ کن اور مہلک اسلحہ کی بجائے تیر، تلوار اور نیزے سے ہی چمٹے رہیں تو یہ ہمیں ذرا بھی فائدہ نہیں دیں گے۔ ممکن ہے یہ تھوڑے بہت لوگوں سے تو دفاع کا کام دے سکیں لیکن دشمن کے لشکر اور حملے کو نہیں روک سکتے۔ کیونکہ دشمن کو صرف اس کے برابر یا اس سے سخت ہتھیاروں کے ساتھ ہی روکا جاسکتا ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَ اَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ﴾ یعنی جتنی استطاعت ہے، کوئی حد مقرر نہیں کی۔ ﴿مِّنْ قُوَّۃٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ﴾ ’’قوت اور گھوڑے تیار رکھو۔‘‘ کیونکہ گھوڑوں میں قیامت تک کے لیے فائدہ رکھ دیا گیا ہے جیسا کہ فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((الخَیْلُ مَعْقُوْدٌ بِنَوَاصِیْہَا الْخَیْرُ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔)) ’’گھوڑوں کی پیشانیوں میں قیامت تک کے لیے فائدہ رکھ دیا گیا ہے۔‘‘[1] |
Book Name | شرح لمعۃ الاعتقاد دائمی عقیدہ |
Writer | امام ابو محمد عبد اللہ بن احمد بن محمد ابن قدامہ |
Publisher | مکتبہ الفرقان |
Publish Year | |
Translator | ابو یحیٰی محمد زکریا زاہد |
Volume | |
Number of Pages | 440 |
Introduction |