’’کُلُّ مُحْدَثَۃٍ فِی الدِّیْنِ بِدْعَۃٌ ‘‘ ’’دین میں ہر نیا کام بدعت ہے۔‘‘ کیونکہ دین بدعت کو قبول نہیں کرتا۔ دین صرف وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مشروع کیا ہے۔ کسی کا قول و فعل صرف اسی صورت ہی قبول کیا جائے گا جب اس کے لیے کتاب اللہ اور سنت رسول سے کوئی دلیل ملے گی۔ دین میں تو ہر نیا کام بدعت ہے۔ البتہ جہاں تک نفع بخش دنیاوی امور میں نئی ایجادات کا تعلق ہے تو ان میں اصل جواز موجود ہے۔ الحمد للہ بہت سی مصنوعات اور ایجادات جو پہلے موجود نہ تھیں اب منظر عام پر آئی ہیں۔ انہیں ہم بدعت نہیں کہتے۔ بلکہ ہم کہتے ہیں: ’’انہیں اللہ نے جائز قرار دیا ہے۔ کیونکہ یہ امور دین سے متعلق نہیں ہیں۔ بلکہ روزمرہ کے ان کاموں سے تعلق رکھتی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے فائدے کے لیے پیدا فرمایا ہے۔‘‘ چنانچہ ہم گاڑی، ہوائی جہاز اور بحری جہاز پر سواری کرتے ہیں۔ لاؤڈ سپیکرز اور ریکارڈر استعمال کرتے ہیں۔ یہ سب ایجادات ہیں، دین سے تعلق نہیں رکھتیں۔ یہ تو محض لوگوں کے لیے وسائل نفع ہیں۔ کوئی انہیں اچھے کاموں میں استعمال کرے گا تو یہ نعمت اور اطاعت الٰہی میں مددگار ثابت ہوں گی اور اگر کوئی انہیں برے مقاصد کے لیے استعمال کرے گا تو یہ اس کی اپنی غلطی ہے۔ ورنہ تو یہ لوگوں کے فائدے کے لیے ہی ایجاد کی گئی تھیں۔ حاصل کلام یہ ہے کہ بدعت ان کاموں کو کہا جاتا ہے جو دین میں نئے ایجاد کئے جائیں۔ لیکن جو چیزیں دنیاوی امور و ایجادات سے تعلق رکھتی ہیں وہ بدعت نہیں ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تیروں، تلواروں اور نیزوں کے ساتھ جہاد کرتے تھے۔ آپ جانتے ہیں کہ بہت سا جدید اسلحہ ایجاد ہوچکا ہے جو پہلے موجود نہ تھا۔ مثلاً میزائل، جنگی جہاز، ٹینک اور بم وغیرہ۔ کیا ہم کہتے ہیں کہ یہ بدعت ہے اور ہم انہیں پسند نہیں کرتے؟ نہیں، بلکہ ہمارے اوپر اُن چیزوں کو لینا واجب ہے جو دشمن کا قلع قمع کرنے میں ہماری ممد و معاون |