اور امور دینیہ میں شکوک و شبہات پیدا کرنا تھا۔ یہ ایک برا آدمی تھا جسے سزا دینا اور لوگوں کے سامنے ایسی بحثیں کرنے سے روکنا ضروری تھا۔ بعض جاہل لوگوں کا آج کے دور میں احادیث کو ضعیف قرار دینا اور ان کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنا اسی میں داخل ہے۔ یہ لوگ عوام الناس میں ایسی بحثیں کرتے ہیں۔ حالانکہ عوام الناس کو اس کا کیا فائدہ؟ اس سے لوگ دین اور سنت کے متعلق شک میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ایسی باتیں عوام الناس، جاہلوں اور ابتدائی طالب علموں کے سامنے نہیں کرنی چاہئیں۔ یہ تو ان علماء کا کام ہے جو جرح و تعدیل اور شرعی امور میں خاص ادراک رکھتے ہوں۔ عام لوگوں کے سامنے ایسی باتوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔ (۳)… یہ گذشتہ بحث کا ہی تکرار ہے۔ کیونکہ جب بدعتیوں سے قطع تعلقی ضروری ہے تو ان کی کتب سے کنارہ کشی بھی ضروری ہے۔ کیونکہ بعض اہل بدعت مرچکے ہیں، ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن ان کی کتابیں موجود ہیں۔ لہٰذا ایک مبتدی شخص جس میں اہلیت نہیں اسے یہ کتابیں نہیں پڑھنی چاہئیں۔ کیونکہ وہ اس سے گمراہ ہوجائے گا اور مرعوب ہوجائے گا۔ البتہ جو شخص پختہ علم والا ہو اسے ایسی کتابوں کا ردّ کرنے کے لیے اور لوگوں کو ان سے بچانے کے لیے ان کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ لیکن جس کے پاس حق و باطل اور صحیح و غلط کی پہچان کی معرفت کی اہلیت نہ ہو اسے اہل بدعت اور گمراہ فرقوں کا مطالعہ نہیں کرنا چاہیے تاکہ وہ اس کی فکر اور عقیدے میں داخل نہ ہوجائے۔ یہ کتابیں بعض اوقات بڑی خوشنما عبارتوں پر مشتمل ہوتی ہیں جو ایک ایسے شخص کو نقصان دیتی ہیں جس کے پاس بصیرت نہیں ہوتی۔ کیونکہ اکثر جھگڑا اور مباحثہ کرنے والے فتنہ پیدا کرنے کے لیے فصاحت اور زباندانی کا اظہار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ منافقوں کے متعلق فرماتے ہیں: ﴿وَاِِنْ یَقُوْلُوْا تَسْمَعْ لِقَوْلِہِمْ﴾ (المنافقون:۴) ’’اور اگر وہ بات کریں تو تو ان کی بات پر کان لگائے گا۔‘‘ کیونکہ وہ بہت اچھے انداز سے گفتگو کرتے تھے حتیٰ کہ سننے والا سمجھتا تھا کہ وہ درست کہہ |