Maktaba Wahhabi

398 - 440
﴿اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَ جَادِلْہُمْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہٖ وَ ہُوَ اَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِیْنَ،﴾ (النحل:۱۲۵) ’’اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلا۔ اور ان سے اس طریقے کے ساتھ بحث کر جو سب سے اچھا ہے۔ بے شک تیرا رب ہی زیادہ جاننے والا ہے جو اس کے راستے سے گمراہ ہوا۔ اور وہی ہدایت پانے والوں کو زیادہ جاننے والا ہے۔‘‘ ﴿وَ لَا تُجَادِلُوْٓا اَہْلَ الْکِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْہُمْ﴾ (العنکبوت:۴۶) ’’اور اہل کتاب سے جھگڑا نہ کرو مگر اس طریقے سے جو سب سے اچھا ہو۔ الا یہ کہ وہ لوگ جنھوں نے ان میں سے ظلم کیا۔‘‘ چنانچہ جس بحث کا مقصد غلبہ حق، شبہات کا رد اور باطل کا قلع قمع کرنا ہو وہ قابل تعریف ہے۔ کیونکہ وہ حق کو بیان کرنے اور دین کی حمایت کی غرض سے ہوتا ہے۔ اور جس بحث کا مقصد تکلف، تنگی اور لوگوں کے سامنے اپنی شخصیات کا اظہار ہو وہ جائز نہیں۔ کیونکہ اس میں کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ لوگوں کے مابین دشمنی پیدا کرتی اور دلوں میں افزائش نفرت کا باعث بنتی ہے۔ لہٰذا یہ ممنوع ہے۔ سیّدما عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں صبیغ نامی ایک شخص جو بعض مسائل کے بارے میں بحث کیا کرتا تھا، مثلاً وہ قرآن کے متشابہ مقامات کے متعلق سوال کرتا تھا، جناب عمر رضی اللہ عنہ نے اسے طلب کرکے سزا دی۔ پھر اسے اس وقت تک مدینہ سے جلاوطن کئے رکھا جب تک اس نے اللہ کے حضور تائب ہوکر اپنے نظریات سے رجوع نہ کرلیا۔[1] یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا مقصد صرف امور عبادات میں بحث، مناظرے کرنا
Flag Counter