اس بات کی کرید نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے فلاں کام کو مشروع کیوں کیا؟ فلاں کام کا حکم کیوں دیا؟ اس میں کیا فائدہ ہے؟ جیسا کہ بعض لوگوں کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنا وقت انہی کاموں میں گزار دیتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ ویسا کیوں ہے؟ اس میں کیا حکمت ہے؟ گویا کہ انہیں شک ہوتا ہے۔ جبکہ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ جب اللہ ربّ العالمین اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی صحیح دلیل مل جائے تو اس حکم کو بجالائیں اور اس بارے میں بحث اور جھگڑا کرنا چھوڑ دیں: ﴿وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِہِمْ وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰــلًا مُّبِیْنًا،﴾ (الاحزاب:۳۶) ’’اور کبھی بھی نہ کسی مومن مرد کا حق ہے اور نہ کسی مومن عورت کا کہ جب اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کر دیں تو ان کے لیے ان کے معاملے میں اختیار ہو۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے سو یقینا وہ گمراہ ہوگیا، واضح گمراہ ہونا۔‘‘ اگر آپ کو حکمت معلوم ہوجائے تو الحمد للہ۔ اور اگر معلوم نہ ہو تو آپ حکمت تلاش کرنے کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ آپ کی ذمہ داری محض دلیل کو پہچاننا ہے۔ جب آپ کو دلیل معلوم ہوجائے تو آپ اس حکم پر عمل کریں، آپ کا عمل حکمت کی معرفت پر موقوف نہیں۔ اہل ایمان کا راستہ یہی ہے۔ جبکہ بحث اور جھگڑا کرنا گمراہ لوگوں اور شک کرنے والوں کا طریقہ ہے۔ اور اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کا حساب لینے والوں کا شیوہ ہے۔ حالانکہ اس سے وقت کا ضیاع ہوتا ہے اور ان کے نزدیک اوامر و نواہی ناقص ٹھہرتے ہیں۔ ان باتوں کے پیچھے پڑنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ شیطان کا کام ہے (اللہ کی پناہ) یہ جھگڑا بے کار ہے۔ البتہ جس بحث اور جھگڑے سے دین کی فصاحت اور شبہات کا ردّ ہو وہ واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر علیہ السلام سے فرماتے ہیں: |