((وَاللّٰہِ لَا یُخْزِیْکَ اللّٰہُ، إِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَقْرِي الضَّیْفَ، وَتَحْمِلُ الْکَلَّ، وَتُعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الدَّہْرِ۔)) ’’ہرگز نہیں، اللہ کی قسم! اللہ آپ کو رسوا نہیں کرے گا، بے شک آپ صلہ رحمی کرتے ہیں ، مہمان نوازی کرتے ہیں، (ناتواں لوگوں کا) بوجھ اٹھاتے ہیں اور مصائب زمانہ پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔‘‘[1] حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسلسل تسلیاں دیتی رہیں تا آنکہ آپ کا خوف ختم ہوگیا۔ پھر آپ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی میں ان کی مدد اور تائید کرتی رہیں اور کفار کی طرف سے دی جانے والی اذیتوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہیں۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بڑی شدید محبت کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی زندگی میں کسی اور عورت سے شادی نہیں کی۔ ابراہیم کے علاوہ نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اولاد انہی کے بطن سے ہے۔ ابراہیم ماریہ قبطیہ کے بطن سے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لونڈی تھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی ان کی تعریف کیا کرتے تھے۔ ان کی سہیلیوں کی عزت کیا کرتے اور ان کا ذکر خیر کیا کرتے تھے۔ حتیٰ کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض بیویوں کو زبان نبوت سے خدیجہ رضی اللہ عنہا کا کثرت سے ذکر سن کر رشک آتا تھا۔ پیغمبر گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بیوی کا نام سودہ بنت زمعہ ہے۔ آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد ان سے بھی مکہ میں ہی شادی کی تھی۔ وہ تادم آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد میں ہی رہیں۔ اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں طلاق دینے لگے تو انہوں نے فرمایا: میں اپنا حق آپ سے ساقط کرکے عائشہ کو ہبہ کرتی ہوں اور آپ کے عقد میں ہی رہنا چاہتی ہوں۔ وہ امہات المومنین میں سے ہونے کا اعزاز گنوانا نہیں چاہتی تھیں۔ چنانچہ آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں طلاق نہ دی اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی رہیں۔ |