Maktaba Wahhabi

374 - 440
(۴)… جولوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ہیں یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کی صفات حسنہ یہ ہیں کہ وہ کفار کے لیے سخت مزاج ہوتے ہیں۔ وہ اللہ کے معاملے میں کسی کی ملامت سے نہیں ڈرتے اور وہ کفار کی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دشمنی کی وجہ سے ان سے نفرت کرتے ہیں۔ ان کے خلاف جہاد کرتے ہیں اور ان سے اظہار لاتعلقی کرتے ہیں۔ لیکن آپس میں وہ انتہائی نرم رویہ اختیار کرتے ہیں۔ ان کا باہمی تعلق ایسا ہوتا ہے جیسے وہ ایک ہی جسم کے اعضاء ہوں۔ یا وہ ایک دیوار کی مانند ہوتے ہیں جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط بناتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تشبیہ دی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی صفت یہ ہے کہ وہ کافروں کے لیے سخت اور باہم ایک دوسرے کے لیے نرم خو تھے۔ اللہ کے حضور سر کو جھکانا، نمازوں کی کثرت، رات کو بارگاہ الٰہی میں کھڑے ہونا اور دن کو اس کی راہ میں جہاد کرنا ان کا شیوہ تھا۔ وہ اللہ کی خوشنودی کے طلبگار رہتے تھے۔ ان کی پیشانیوں پر سجدوں کے نشانات ان کی پہچان تھے۔ ان کی یہ علامت تورات میں بھی رب ذوالجلال نے بیان فرمائی ہے۔ الغرض اس امت کے یہ اوصاف تورات میں مذکور ہیں جو موسیٰ علیہ السلام پر نازل کی گئی تھی۔ اگرچہ یہودیوں نے تورات میں تحریف کرکے اس امت کا انکار کردیا ہے۔ لیکن تورات کے نازل کرنے والے رب ذوالجلال نے ہمیں بتادیا ہے کہ اس برکت کا ذکر تورات میں موجود تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل کردہ کتاب انجیل میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مثال یہ بیان کی گئی ہے: ﴿کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْئَہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوقِہٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ﴾ ’’اس کھیتی کی طرح ہے جس نے اپنی کونپل نکالی، پھر اسے مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہوئی، پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہو گئی۔ کاشت کرنے والوں کو خوش کرتی ہے۔‘‘ ابتداء میں اسلام کمزور تھا، صحابہ کرام کی تعداد کم تھی اور انہیں کمزور سمجھا جاتا تھا جیسا کہ
Flag Counter