کرے کہ صحابہ کے فضائل کو ماننا چاہیے اور ان سے جو چند ایک غلطیاں ہوئی تھیں، وہ بخش دی گئی ہیں۔ اسی لیے جب اللہ تعالیٰ نے مہاجرین و انصار کا ذکر کیا تو فرمایا: ﴿وَالَّذِیْنَ جَاؤا مِنْ بَعْدِہِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اغْفِرْ لَنَا وَلِاِِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِـــلًّا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِِنَّکَ رَئُ وْفٌ رَحِیْمٌ،﴾ (الحشر:۱۰) ’’اور (ان کے لیے) جو ان کے بعد آئے، وہ کہتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جنھوں نے ایمان لانے میں ہم سے پہل کی۔ اور ہمارے دلوں میں ان لوگوں کے لیے کوئی کینہ نہ رکھ جو ایمان لائے۔ اے ہمارے رب !یقینا تو بے حد شفقت کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘ اس قاعدے کو یاد رکھیں، اسے اپنا نصب العین بنالیں اور اس سے تجاوز نہ کریں۔ ***** وَذِکْرُ مَحَاسِنِہِمْ، وَالتَّرَحُّمِ عَلَیْہِمْ، وَالْإِسْتِغْفَارُ لَہُمْ، وَالْکَفُّ عَنْ ذِکْرِ مَسَاوِئِہِمْ وَمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ (۱) وَاِعْتِقَادُ فَضْلِہِمْ وَمَعْرِفَۃِ سَابِقَتِہِمْ (۲) قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی ﴿وَالَّذِیْنَ جَاؤا مِنْ بَعْدِہِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اغْفِرْ لَنَا وَلِاِِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِـــلًّا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِِنَّکَ رَئُ وْفٌ رَحِیْمٌ﴾ (الحشر:۱۰) (۳) وَقَالَ اللّٰہُ تَعَالَی ﴿مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَہُمْ﴾ (الفتح:۲۹) (۴) ترجمہ…: ان کے محاسن کا تذکرہ کرنا، ان کے لیے رحمت کے جذبات رکھنا، ان کے لیے استغفار کرنا، ان کی غلطیوں اور باہمی اختلافات کے تذکرے سے باز رہنا، ان کی افضلیت کا عقیدہ رکھنا اور ان کی اوّلیت کو پہچاننا بھی سنت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور (ان کے لیے) جو ان کے بعد آئے، وہ کہتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو |