Maktaba Wahhabi

358 - 440
البتہ جس کا گناہ ارتداد سے چھوٹا ہو جیسے شراب نوشی، سود خوری، زنا کاری اور چوری جیسے اعمال تو یہ بھی اگرچہ بہت خطرناک، تباہ کن اور مہلک افعال ہیں لیکن ان کے مرتکب کو ہم کافر نہیں کہیں گے۔ بلکہ ہم کہیں گے کہ وہ اپنے ایمان لانے کی وجہ سے مومن ہے اور کبیرہ گناہ کے ارتکاب کی وجہ سے فاسق ہے۔ یا ہم یوں کہیں گے کہ وہ ناقص ایمان والا مومن ہے۔ کبیرہ گناہوں کے مرتکب کے بارے میں اہل سنت والجماعت سلفی اہل حق کا یہی عقیدہ ہے۔ ہم ایسے لوگوں کو کبیرہ گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے کافر نہیں کہتے جب تک وہ شرک یا ارتداد کی حد تک نہیں نہ پہنچ جائیں۔ بلکہ ہم انہیں فاسق اور ناقص مومن کہتے ہیں، خوارج و معتزلہ کے برعکس۔ جو کہ شرک سے چھوٹے کبیرہ گناہوں کے مرتکب کو بھی کافر قرار دیتے ہیں۔ وہ شرابی، زانی، سود خور وغیرہ پر کفر کا فتویٰ لگاتے ہیں۔ لیکن یہ واضح گمراہی ہے۔ معتزلہ کہتے ہیں: ایسا شخص اسلام سے تو نکل جاتا ہے لیکن کفر میں داخل نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ ان دونوں حدوں کے درمیان ایک مقام پر ہوتا ہے۔ نہ تو وہ کافر ہے اور نہ ہی مسلمان۔ البتہ اگر وہ اسی حالت میں مرجائے تو کافر ہے اور جہنم میں رہے گا۔ یہی مؤقف خوارج کا ہے۔ دونوں فرقے ہی باطل اور گمراہ ہیں۔ چنانچہ بندۂ مومن اگرچہ کبیرہ گناہ کا ارتکاب کر بھی بیٹھے، اس کے اندر ایمان کی جڑیں باقی رہتی ہیں۔ البتہ کبیرہ گناہ اس کے ایمان میں نقص پیدا کردیتا ہے اور اسے فاسق بنا دیتا ہے لیکن اسے کافر نہیں کہا جاسکتا۔ اس عظیم مسئلہ میں اہل سنت والجماعت سلفی اہل حق کا یہی مؤقف ہے۔ خوارج و معتزلہ کے برعکس مرجئہ فرقہ کے حاملین کہتے ہیں کہ ایمان و تصدیق دل میں ہوتے ہیں اور اعمال ان میں داخل نہیں۔ لہٰذا جب تک کوئی شخص قلبی طور پر مومن ہے اس کو کافر نہیں کہا جاسکتا، خواہ وہ جو بھی کرتا رہے۔ خواہ غیر اللہ کو پکارتا رہے اور شرک کا ارتکاب کرتا رہے۔ کیونکہ ان کے نزدیک ایمان صرف دل سے تصدیق کرنے کو کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک کوئی شخص دل میں اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہے ہم اس پر کفر کا فتویٰ نہیں لگاسکتے۔ ایمان کے ہوتے ہوئے گناہ کوئی نقصان نہیں پہنچاتے جیسا کہ کفر کے
Flag Counter