آجاتی ہے اور وہ جنتیوں والے اعمال کرنے لگتا ہے۔ چنانچہ وہ جنت میں داخل ہوجاتا ہے۔‘‘[1] جن اعمال پر موت آئے انجام انہی کے مطابق ہوتا ہے۔ جبکہ ہم نہیں جانتے کہ کون کس حالت میں مرے گا؟ لیکن یہ بات ہمیں کسی مسلمان کے بارے میں حسن ظن رکھنے اور اس کے اچھے انجام کی امید رکھنے سے نہیں روکتی۔ اور نہ ہی یہ کسی نافرمان یا فاسق آدمی کے بارے میں یہ گمان رکھنے سے مانع ہے کہ اس کا انجام برا ہوگا۔ کسی کو جنتی یا جہنمی کہنے کے بارے میں مسلمانوں کا یہی مؤقف ہے۔ ***** وَلَا نُکَفِّرُ أَحَدًا مِنْ أَہْلِ الْقِبْلَۃِ بِذَنْبٍ، وَلَا نُخْرِجُہُ عَنِ الْإِسْلَامِ بِعَمَلٍ۔ (۱) ترجمہ…: ہم اہل قبلہ میں سے کسی پر کسی گناہ کی وجہ سے کفر کا فتویٰ نہیں لگاتے اور نہ ہی اسے کسی عمل کی وجہ سے اسلام سے خارج قرار دیتے ہیں۔ تشریح…: (۱) یہ مسئلہ تکفیر ہے جو کہ ایک اہم اور گھمبیر موضوع ہے۔ بالخصوص عصر حاضر میں جبکہ جہالت کی وجہ سے اور ایسے مبلغین کی کثرت کی وجہ سے بہت سے لوگوں کے لیے حق و باطل کے درمیان تمیز مشکل ہوچکی ہے، جنہوں نے اہل علم سے علم حاصل نہیں کیا بلکہ وہ اس معاملے میں دیوانے ہوچکے ہیں۔ لیکن جو شخص نواقض اسلام میں کسی کام کا مرتکب ہوتا ہے، مثلاً اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے، دین کا مذاق اڑاتا ہے، جادو کرتا ہے یا کتاب و سنت کی توہین کرتا ہے تو اس کے کفر میں کوئی شک نہیں۔ ایسے شخص پر ہم مرتد ہونے کا فتویٰ لگاتے ہیں۔ اسے دین اسلام سے خارج سمجھتے ہیں اور کافر قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ اسلام کے منافی عمل کا ارتکاب ایسے شخص کے کفر اور ارتداد کا مقتضی ہوتا ہے۔ |
Book Name | شرح لمعۃ الاعتقاد دائمی عقیدہ |
Writer | امام ابو محمد عبد اللہ بن احمد بن محمد ابن قدامہ |
Publisher | مکتبہ الفرقان |
Publish Year | |
Translator | ابو یحیٰی محمد زکریا زاہد |
Volume | |
Number of Pages | 440 |
Introduction |