Maktaba Wahhabi

355 - 440
وَکُلُّ مَنْ شَہِدَ لَہُ النَّبِیُّ صلي للّٰه عليه وسلم بِالْجَنَّۃِ شَہِدْنَا لَہُ بِہَا، کَقَوْلِہِ: اَلْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ سَیِّدَا شَبَابِ اَہْلِ الْجَنَّۃِ۔ [1] وَقَوْلِہِ لِثَابِتِ بْنِ قَیْسٍ: إِنَّہُ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ۔ [2] وَلَا نُنَزِّلُ أَحَدًا مِنْ أَہْلِ الْقِبْلَۃِ جَنَّۃً وَّلَا نَارًا۔ (۱) ترجمہ…: اور ہر وہ شخص کہ جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی گواہی دی ہے ہم بھی اس کے جنتی ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساداتنا حسن وحسین رضی اللہ عنہما کے بارے میں ارشاد ہے: ’’حسن وحسین ابناء علی رضی اللہ عنہم جنت کے نوجوانوں کے سردار ہوں گے۔‘‘ اور آپؐ کا جناب ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمان ہے: ’’بلاشبہ وہ جنتی ہیں۔‘‘ اور ہم اہل قبلہ میں سے کسی کو جنتی یا جہنمی قرار نہیں دیتے۔ تشریح…: (۱) ہم کسی کو جنتی یا جہنمی نہیں کہیں گے سوائے ان لوگوں کے جن کے جنتی یا جہنمی ہونے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گواہی دی۔ ان کے علاوہ ہم کسی معین شخص کے جنتی یا جہنمی ہونے کا فتویٰ نہیں دیں گے۔ البتہ ہم نیکوکار لوگوں کے جنت میں جانے کی امید رکھتے ہیں اور گنہگاروں کے جہنم میں جانے سے ڈرتے ہیں۔ کسی معین شخص کے جنتی یا جہنمی ہونے کا فیصلہ دینے کے لیے اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت سے دلیل چاہیے۔ لہٰذا ہم دلیل کے بغیر کسی کو بالوثوق شہید یا جنتی نہیں کہتے۔ ہاں! جو شخص اللہ کے راستے میں قتل ہوتا ہے اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے جہاد کرتا ہے ہم امید رکھتے ہیں کہ وہ شہادت کا درجہ پالے گا۔ اسی طرح گنہگار، کافر، فاسق لوگوں کے بارے میں ہم ڈرتے ہیں کہ وہ جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ لیکن ہم یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ وہ جہنمی ہیں۔ کیونکہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول کرلیتا ہے۔ اہل قبلہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو بیت اللہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے ہیں۔ *****
Flag Counter