Maktaba Wahhabi

35 - 440
وَتَنَزَّہَ عَنِ الصَّاحِبَۃِ وَالْأوْلَادِ ترجمہ…: اور وہ بیوی اور اولاد سے پاک ہے۔ تشریح…: الصاحبۃ سے مراد بیوی ہے۔ تنزہ: یعنی وہ پاک ہے بیوی سے۔ والأولاد: اللہ تعالیٰ اولاد سے بھی پاک ہے۔ کیونکہ وہ اپنی مخلوق سے بے نیاز ہے اور بیوی و اولاد کی ضرورت تو مخلوق کو ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ کمزور اور کسی مددگار کی محتاج ہوتی ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے بے نیاز ہے۔ اسے بیوی اور اولاد کی کوئی ضرورت نہیں۔ کیونکہ اولاد اپنے والد کا حصہ ہوتی ہے اور اللہ جل و علا کا کوئی مثل، شریک اور ہمسر نہیں۔ اس کی مخلوق میں سے کوئی اس کی مثل نہیں۔ چنانچہ وہ مخلوق سے بے نیاز ہے اور اس نے اپنی کوئی اولاد نہیں بنائی۔ نہ تو اس نے کسی کو جنا اور نہ ہی کسی نے اس کو جنا اور نہ ہی کوئی اس کا ہمسر ہے۔ قرآن کریم کی بہت سی آیات میں یہ مفہوم پایا جاتا ہے۔ اس نے ان لوگوں کا ردّ کرتے ہوئے خود کو اولاد سے پاک قرار دیا جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی اولاد ہے۔ مثلاً عیسائی سیّدنا عیسیٰ علیہ السلام کو، یہودی سیّدنا عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کہتے ہیں۔ جیسا کہ زمانہ جاہلیت کے مشرکین فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہیں جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿اَنّٰی یَکُوْنُ لَہٗ وَلَدٌ وَّ لَمْ تَکُنْ لَّہٗ صَاحِبَۃٌ﴾ (الانعام:۱۰۱) ’’اس کی اولاد کیسے ہو گی، جب کہ اس کی کوئی بیوی نہیں۔‘‘ اور صاحبۃ کا معنی ہے: بیوی۔ اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہیں۔ یہ تو صرف مخلوق کے لائق ہے کہ وہ شادی، نسل اور اولاد کی محتاج ہوتی ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ مخلوق سے بے نیاز ہیں۔ بلکہ مخلوق اللہ تعالیٰ کی محتاج ہوتی ہے۔
Flag Counter