Maktaba Wahhabi

281 - 440
﴿سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ﴾ ’’پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو رات کے وقت سیر کروائی۔‘‘ ’’سَرْیٌ‘‘ کا لفظ عربی زبان میں ’’رات کے وقت سفر کرنے‘‘ پر بولا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسراء کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ﴿لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا﴾ ’’تاکہ ہم اس کو اپنی بعض نشانیاں دکھائیں۔‘‘ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس رات نبی مکرم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمان اور زمین کی بادشاہی میں اپنی عجیب و غریب نشانیاں دکھائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت و جہنم اور ان میں موجود لوگوں کو دیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے جو چاہی اپنی وحی کے ذریعے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو فرمائی اور سات آسمانوں کے اوپر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پانچ نمازیں فرض کی گئیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر اتر آئے۔ اسی ایک رات میں مکہ واپس پہنچ گئے اور اگلے دن لوگوں کو سارا واقعہ بتلایا۔ یہ سن کر اہل ایمان کے ایمان میں اضافہ ہوگیا۔ کیونکہ وہ تو پہلے ہی آپ کی تصدیق کرچکے تھے اور ایمان کامل رکھتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بات کو جھوٹ نہیں سمجھتے تھے۔ اسی لیے جب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ آپ کا ساتھی کہتا ہے؛ وہ رات کو بیت المقدس گیا تھا، آسمان پر چڑھا اور ایک ہی رات میں واپس بھی آپہنچا ہے تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے تو ایسا ہی ہوگا۔ میں آسمانوں کی باتوں پر آپ کی تصدیق کرتا ہوں تو کیا اس بات کی تصدیق نہیں کروں گا۔‘‘ لیکن کفار اور کمزور ایمان والے لوگوں نے اس واقعے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ٹھٹھا کرنے کا بہانہ بنالیا اور کمزور ایمان والوں میں سے بعض مرتد ہوگئے۔ کفار کو اس پر بہت خوشی ہوئی۔ لیکن اسراء اور معراج حق ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک معجزہ ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کا امت محمدیہ کو عطا کردہ بہت بڑا اعزاز ہے۔ چنانچہ اس پر ایمان لانا واجب ہے۔
Flag Counter