مِثْل حَدِیْثِ الْاِسْرَائِ وَالْمِعْرَاجِ ۔ (۱) ترجمہ…: مثلاً اسراء اور معراج کی حدیث۔ تشریح…: اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جو غیب کی خبریں بتائی ہیں ان میں سے ایک اسراء اور معراج کا واقعہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا ط اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ،﴾ (الاسراء:۱) ’’پاک ہے وہ (اللہ ربّ العالمین) جو رات کے ایک حصے میں اپنے بندے کو حرمت والی مسجد سے بہت دور کی اس مسجد تک لے گیا جس کے اردگرد کو ہم نے بہت برکت دی ہے، تاکہ ہم اسے اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔ بلاشبہ وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔‘‘ یعنی مکہ مکرمہ سے فلسطین کی مسجد اقصیٰ تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گئے۔ مکہ اور فلسطین کے درمیان اتنی مسافت ہے کہ اونٹ اس کو ایک ماہ میں طے کرتا ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی رات میں وہاں گئے اور اسی میں واپس بھی لوٹ آئے۔ (واقعہ یوں ہے کہ) نبی معظم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں سوئے ہوئے تھے۔ جبرائیل علیہ السلام آئے۔ آپ کو براق پر سوار کیا اور بیت المقدس لے گئے (یاد رہے براق اس چوپائے کا نام ہے جس پر انبیاء سواری کرتے تھے اور اس کا قدم وہیں جاکر لگتا ہے جہاں تک اس کی نظر جاتی ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس میں تمام انبیاء کو نماز پڑھائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی روح اور جسم سمیت بیداری کی حالت میں نہ کہ نیند میں آسمان پر چڑھایا، لے جایا گیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہے۔ معراج کا تذکرہ سورۃ نجم کے شروع میں اور اسرا کا ذکر سورۃ بنی اسرائیل کے آغاز میں ہے۔ |
Book Name | شرح لمعۃ الاعتقاد دائمی عقیدہ |
Writer | امام ابو محمد عبد اللہ بن احمد بن محمد ابن قدامہ |
Publisher | مکتبہ الفرقان |
Publish Year | |
Translator | ابو یحیٰی محمد زکریا زاہد |
Volume | |
Number of Pages | 440 |
Introduction |